Mission


Inqelaab E Zamana

About Me

My photo
I am a simple human being, down to earth, hunger, criminal justice and anti human activities bugs me. I hate nothing but discrimination on bases of color, sex and nationality on earth as I believe We all are common humans.

Saturday, September 28, 2013

........................حکمران .. معاشرہ  اور عالمی بینک  .......................
................یہ بات اپنی جگہ اٹل ہے . حقیقت ہے ..اس کو نہیں جھٹلایا جا سکتا ..کہ دین اسلام کے اپنانے سے . اس  کے اصولوں ضابطوں کو اپنانے سے معاشرے کی برائیوں کا تدارک کیا جا سکتا ہے ....مگر اس وقت اگر حالات  و واقعات کا بغور جائزہ لیا جاۓ ..تو  یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے ..کہ معاشرے کی بربادی میں کرپٹ .نا اہل اور بد کردار حکمران کا عمل دخل واضح نظر آتا ہے ..بلکہ میرے نزدیک تو سب برائیوں کی جڑھ  ہی بد کردار حکمران ہے ...کیونکہ آپ اس حقیقت سے کبھی بھی انکار نہیں کر سکتے کہ معاشرے کی بربادی کی بڑی وجہ . مہنگائی .بیروزگاری اور انصاف کے ناپید ہونے کی وجہ سے ہے ..کیونکہ حکمران اقربا پروری . سفارش اور رشوت والا نظام چاہتا ہے ....کیونکہ حکمران نا اہل ہے اس لئے نظام تبدیل کرتے ہوۓ  ڈرتا ہے ..بزدل ہے اور مکار بھی ہے ..اس لئے اپنی کرسی کو بچانے کے لئے عالمی طاقتوں کے ہاتھوں کھیلتا ہے اور عالمی بینک سے قرضے لیتا ہے اور ان کی شرایط  کو تسلیم کرتا جاتا ہے اور مہنگائی  کرتا جاتا ہے ...حتہ کہ معاشرے میں ہر برائی جنم لے  لیتی ہے ...ساری برائیوں کی جڑھ یہ کشکول ہے جو حکمران چند غداروں کی وجہ سے تھام لیتا ہے ..کیونکہ وہ نقشہ ہی ایسا  پیش کرتے ہیں کہ بدکردار حکمران کو کشکول کے بغیر کرسی دن میں بھی گھومتی  نظر آتی ہے .....آپ پوری دنیا کے ملکوں پر غور کر لیں .نظر دوڑا لیں کہ جن جن ملکوں نے بھی عالمی بنکوں سے قرض لئے وہ کبھی خوشحال نہیں ہوۓ ...چند ایک نے جو صحیح مصرف کیا ..صحیح طریقے سے صحیح عوامی منصوبوں پر خرچ کیا وہ تو اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گے   ..مگر زیادہ تر اپنے کرپٹ حکمران کی وجہ سے معاشرے کو ایسی دلدل میں پنچا گہے ..جہاں سے واپسی کا سفر سواۓ انقلاب اور خون خرابے کے کچھ بھی اور کبھی بھی نہیں  نکلے   گا ...اگر میں یہاں انڈونیشیا یا کی دوسرے ملکوں کی مثالیں دوں ..یا مختلف ملکوں کا جایزہ پیش کروں جن ملکوں کا سفر کر چکا ہوں اور جو میں دیکھ چکا ہوں تو بات لمبھی ہو جاۓ گی ..کہ کس طرح ایک سازش کے تحت مسلمان ملکوں کے عوام کو مجبور کیا گیا اور بیروزگاری  . مہنگائی . جیسی لعنت کی وجہ سے لڑکیوں کو گھر سے روزگار کی خاطر نکلنا پڑا ..اور پھر اس گھر سے نکلی ہوئی فاطمہ نے کیا کیا گل کھلاۓ ..لکھنا اور دیکھنا زیب نہیں دیتا ....اسی لئے یہ ملالہ وغیرہ جیسے ڈرامے کرواۓ جاتے ہیں اور اسی لئے ہر روز بجلی . گیس . پیٹرول کی قیمتیں  میں اضافہ کیا جاتا ہے ..یہ سب ڈرامے کرپشن کرنے مال بنانے اور عالمی سازش کو پروان  چڑھانے کے لئے کئے  جاتے ہیں ..یہ ایک گہری سازش ہے ..جس سے ہمارے معاشرے کو تباہ کر دیا گیا ہے ..یہ میوزیک اور فیشن شو بھی اسی کا حصہ ہیں ..ہر حکمران نے اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے ...اب معاشرہ ذہنی طور پر .اخلاقی طور پر اور معاشی طور پر تباہ  ہو  چکا  ہے ......اب ملک میں زنا .ریپ ..اغوا .ڈکیتیوں اور لوٹ مار  .منافقت . ملاوٹ اور مادیت پرستی  پر قابو مشکل  ہے ..اب انقلاب ہی آخری حل  ہے ..جو نظام بھی بدلے گا اور بد کردار حکمران اور کشکول کو بھی توڑے  گا .......جاوید اقبال چیمہ ..میلان ..اطالیہ ...
......................................انقلاب  بغاوت ...........................
..............اٹھو ہم وطنو اب انقلاب  کی  ریاضت  کرنا ہو گی 
.............عمر  فاروق جیسی   اب  دعوت  خلافت  کرنا  ہو  گی 
............با ضمیرو وقت  ہے اب  ضمیر  کی سخاوت کرنا ہو گی 
............مکرو  فریب  کی  سیاست  کے  خلاف بغاوت  کرنا ہو گی 
...........اپنے لئے  تو  سبھی  کرتے  ہیں 
...........اب  حکمران  کے  لئے  بھی عبادت کرنا ہو گی 
............ہر  روز  کے  مرنے  سے  بہتر  ہے 
...........اب  موت  کی بھی   عیادت  کرنا  ہو گی 
...........حکمران  چور لٹیرا  کرپٹ  اور غدار ہے 
..........اب  اس  کے خلاف بھی  بغاوت کرنا ہو گی 
...........یہ فرسودہ نظام ایسے  نہیں  بدلے  گا 
.........اب  قطرہ  خون  کی  خیرات  کرنا ہو گی 
...........قبر  کی  جگہ  ملے  نہ  ملے 
.........اب  کفن   باندھنے  کی استقامت کرنا ہو گی 
...........ہر  تجزیہ  نگار ہے یہاں براۓ  فروخت  جاوید 
..........لفظوں  کی نہیں اب  عملی خطابت  کرنا ہو گی 
..............................جاوید اقبال چیمہ ...میلان ..اطالیہ 
...........٠٠٣٩..٣٢٠...٣٣٧...٣٣٣٩........

Friday, September 27, 2013

................................کوئی خفیہ طاقت ہم کو چلا رہی ہے .............
.............اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دیکھ کر میں تو ھکه بھکہ رہ گیا ..کیونکہ ایسی  مسکراہٹ میں اسے کبھی نہیں دیکھا تھا ..بارش سے کپڑے بھیگے ہوۓ اور سانس پھولا ہوا تھا ..مگر اس حال میں بھی مسکراہٹ ...اس کے بولنے سے پہلے ہی میں نے سوال کر دیا ..کہ کیا اطالیہ کے کنفرم کاغذات مل گہے  ہیں یا کوئی لاٹری نکل آئی ہے ..مگر وہ تو پاگلوں کی طرح ہنستا ہی جا رہا تھا ...آخر کار میں نے اسے بیٹھنے کا کہا اور تولیہ دیا کہ اپنی تھوڑی سی صفائی کر لو اور آرام سے بتاؤ کہ کیا ماجرا ہے ...اس نے بالاخر جو جملہ کھا ...اس نے مجھے بھی چونکا دیا ..کہنے لگا کہ پاکستان کے سی .ڈی .اے ..اسلامآباد سے خوشی کی خبر آئی ہے ..     میں نے کہا کہ پاکستان اور خوشی کی خبر ... بھر حال بتاؤ ...تو اس نے بتایا ....کہ کافی ساری اسلام آباد کی  عمارتیں بغیر نقشہ  پاس کرواۓ بنائی  گئی  ہیں اور غیر محفوظ بھی ہیں ..کسی وقت بھی کوئی حادثہ پیش آ سکتا ہے ....میں نے بڑے افسوس کے ساتھ کہا کہ   یار یہ کوئی خوشی کی خبر ہے ...یہ تو تمہارا پاگل پن ہے جو دوسروں کی بربادی پر خوشی منہ رہے ہو ...اور یہ بھی بتا دو کہ تم کو  خبر  کے کونسے حصے پر خوشی ہوئی ہے ..جبکہ مجھے ذاتی طور پر تم سے دونوں باتوں پر اختلاف ہے ....وہ کہنے لگا کہ یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے کہ پاکستان میں نقشے کے بغیر گھر بنانا یا بلڈنگ بنانا ..مگر اسلام آباد میں یہ گھپلے اچھی روایت  نہیں ہے ..خوشی کی خبر یہ ہے کہ چند اہم عمارتیں بھی غیر محفوظ ہیں ....اس پر بھی میں نے عتراض کیا ..کہ کسی اہم عمارت  کے غیر محفوظ ہونے پر بھی کوئی خوشی کی خبر نہیں بنتی ...کیونکہ اس سے کونسا ملک میں انقلاب آ جاۓ گا ....کہنے لگا کہ یہی دو نقطے سمجھنے والے ہیں کہ اگر فرض کرو کہ زرداری صاحب کو کوئی یہ کہے ..کہ ملک ریاض نے جو تم کو محل بنا کر دیا ہے اس میں خفیہ ٹرانسمیٹر .خفیہ آلات رکھے  گہے  ہیں ..تو بتاؤ کہ وہ سکون  سے وہاں عیاشی  کر سکیں گے ..بلکہ محل تو ویران ہو جاۓ گا ....اسی لئے اسلام آباد سے  یہ شوشہ چھوڑا  گیا ہے ..کہ حکمران کی نیند میں خلل ڈالا گیا ہے ...تاکہ میاں صاحب اس فرسودہ نظام تبدیل کرنے کا حکم جاری فرما دیں ..کیونکہ تم جانتے ہو کہ نظام نے اس وقت تبدیل ہونا ہے ..جب حکمران کی اپنی گردن شکنجے میں آے  گی ...جب کہ ابھی تک غریب کی گردن شکنجے میں ہے ..اسی لئے تم کو خوشخبری سناتا ہوں کہ تمہارا انقلاب کا خواب اب پورا ہونے والا ہے ..یہی میری خوشی ہے اور دوسری خوشی یہ ہے کہ یہ اچھا ہوا ہے کہ یہ خبر زرداری صاحب کی حکومت میں نہیں آئی ...ورنہ ساری عمارتوں کو گرانے کا اور ملک ریاض اور دوسرے ٹھیکیداروں  کو اپنے اپنے بریف کیس کے وژن کے حساب سے ٹھیکے  دئے  جانے کا حکم صادر  ہو جاتا ...اور اس طرح ہم کو عالمی بینک سے مزید ٥٠ سال کے لئے گروی رکھ  کر قرض لے لیا جاتا ..مگر امید ہے نواز شریف اتنی گری ہوئی حرکت نہیں کرے گا اور وہ سکون  سے خدا پر بھروسہ رکھ  کر سویا کرے گا ..ہاں البتہ غفلت برتنے پر ایک انکوائری کمیٹی ضرور بنا دے گا ..جو مزید نواز حکومت تک..سی ..ڈی ..اے ..کے ساتھ کام یکجہتی کے ساتھ کرتی رہے گی اور اپنے حصے کے پلاٹ وغیرہ لیتی رہے گی ..اللہ ..اللہ ...خیر سلہ ............میں اپنے دوست کی خوشی پر رو رہا تھا اور اس کی ذہانت کو داد دے رہا تھا ....کہ اس نے جو خبر دی ہے .اس کے اثرات عنقریب ضرور ظاہر ہوں گے ..یہ ایک گہری سازش سے خبر نشر کروائی ہے ..عنقریب آپ کو اس کی گہرائی  اور تہ تک لے کر جاؤں گا ......مگر اس وقت صرف ایک ہی بات سوچ رہا ہوں ...کہ ہم کو  کوئی  خفیہ طاقت ہی چلا رہی ہے ..ہمارا پاکستان کو چلانا کوئی اہمیت  نہیں رکھتا اور نہ ہم اس قابل  ہیں .....بس صرف خدا کی واحد ذات ہے جو ہم کو چلا رہی ہے 
.........................جاوید اقبال چیمہ ..میلان ..اطالیہ ..٠٠٣٩..٣٢٠..٣٣٧..٣٣٣٩......   
.....................نواز شریف حکومت عالمی طاقتوں کے نرغے میں ..............
.............میرے دوست نے کہا  سناؤ ..جو بزرگ کہا  کرتے تھے ووہی ہو رہا ہے نہ ......کہ نواز شریف لوگوں سے کہ رہا ہے کہ اگر ووٹ دئے  ہیں تو مزہ بھی لے لو.....یعینی دوسرے الفاظوں میں وہ کہ رہا ہے کہ ...ہور  چوپو ..ہور چوپو .....مگر میں نے دوست سے عرض کیا ...نہیں ایسا نہیں ہے ..نواز شریف دل کا برا نہیں ہے .وہ مسکین  بن کر بات کرتا ہے ...سلطان راہی  مرحوم کی طرح بھڑکیں نہیں مارتے اور نہ شہباز شریف کی طرح جزباتی ہو کر چھوٹے نعرے  نہیں مارتے ..نواز شریف مکمل طور پر بےقصور ہیں ..وہ پرویز رشید اور اسحاق ڈار کے ورغلانے میں آ چکے ہیں ..ویسے بھی وہ اقتدار کے بھوکے ہیں ..اور جو لوگ ان کو اقتدار تک لاۓ  ہیں ..ان  کی بات تو مان  کر چلنا ہو گا ...باقی اگر کوئی میاں صاحب سے یہ کہے کہ پانچ سال زرداری کی طرح پورے کریں ...تو لازمی بات ہے وہ یہی کریں گے ...اور عوام جاۓ جھنم میں ....بجلی .گیس ..بد امنی ..مہنگائی اور بیروزگاری سے میاں  صاحب کو کیا لینا دینا ....الیکشن کے دنوں میں وہ کشکول توڑنے کی بات کیا کرتے تھے اب وہ اسحاق ڈار .بیوروکریسی اور عالمی ایجنٹوں کے کہنے پر کشکول کو بھرنا چاہتے ہیں ...مگر پھچلے سالوں سے کافی سیاسی دوستوں کے قرض بھی  اتارنے  ہیں .جس کی وجہ سے کشکول بھرا ہی نہیں جا رہا ....ملک منشاء .ملک ریاض . ایئر بلو کے عبّاسی  صاحب کو بھی خوش کرنا ہے ...خزانے کو ان لوگوں  کی شان میں لوٹانا بھی ہے ...ریلوے .پی.آئی .اے ...سٹیل مل اور دوسری فیکٹریوں کو کوڑیوں کے مانند فروخت بھی کرنا ہے ..کچھ کو پلاٹ  زمین دے کر نوازنا بھی ہے ..جہاں اتنے سارے کام کرنے والے ہوں ..وہاں بیچارہ نواز شریف خزانے کو کس کے خون سے سیراب  کرے گا ..آخر کار عوام کس لئے ہیں ..کیا عوام سڑکوں کو گیس کو بجلی کو پیٹرول کو استمعال نہیں کرتے ...تو پھر زرداری کو بھی عوام نے برداشت کیا ...تو پھر کیا وجہ ہے ..کہ جو زرداری صاحب کرتے تھے وہ نواز شریف کریں تو عتراض کس بات پر ...جب نواز . زرداری . بھائی  بھائی  ہیں ..تو پھر عوام کو کیا تکلیف ہے ..عوام تو غنڈہ گردی کرتے ہیں ..نواز ، زرداری کی زمین پر جان بوجھ کر فساد پیدا کرتے ہیں ...سیاسی لٹیرے تو ایک دوسرے کے خلاف تسبیح پر منافقت کا ورد کرتے ہیں ..فرق صرف اتنا ہے کہ زرداری کے زمانے میں سیدھا ورد ہو رہا تھا .اب الٹا کیا جا  رہا ہے ....یاد رکھو بزرگ کہا  کرتے تھے ..کہ اگر لوٹ مار یا موت کا الٹے اور سیدھے راستے یعینی دونوں طرف  سے  خوف ہو ..تو پھر بہتر ہے کہ سیدھا راستہ ہی اپنایا جاۓ ...تو میرا عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کشکول توڑنے سے بھی نواز شریف عوام کے ساتھ یہی ظلم برپا کرنے والے ہیں ..تو بہتر ہے ایسے کشکول کو توڑ  دیا جاۓ ..جس سے عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آنے والی .....اگر اسی طرح عوام نے روز روز مرنا ہے ...تو بہتر ہے ایک ہی دفعہ ذبح کر دو ......تو  میاں صاحب آپکی نذر  کرتا ہوں بڑے ادب کے ساتھ .......جرات سے تو افکار دنیا سے گزر کیوں نہیں جاتا 
...............................شاہین  ہے تو پھر آشیانے کا فکر کیوں نہیں جاتا 
.............................گزرنا ہے تو اس پل صراط سے گزر کیوں نہیں جاتا 
.........................کرنا ہے گر یہ فیصلہ تو پیا  یہ زھر کیوں  نہیں  جاتا 
........................معشیت  کا پہیہ  تو  جام  ہو  ہی  چکا   ہے 
.......................غداروں کی آخرت کا سامان کر کیوں نہیں جاتا 
......................موت برحق ہے تو یہ زندگی کا فکر کیوں نہیں جاتا 
.....................ہر روز مرنے سے بہتر تو اک دن مر  کیوں نہیں جاتا 
...................کل  ہی مرجھا جانا ہے جس   پھول   نے  آخر 
.................وہ آج ہی فضاؤں میں  خوشبو سے  بکھر کیوں  نہیں جاتا 
..................آخر کوئی تو ہو گا جو نکلے گا باندھ  کے   کفن 
.................احتساب  کا  مرد  قلندر  ہے  تو بن  نر  کیوں نہیں جاتا 
................بدلنا ہے نظام . آنا  ہے  انقلاب  نے  یہاں  اک  دن 
...............تو ہی بدل کے نظام  بن  امر  کیوں  نہیں  جاتا 
...................آمریت کے آمر  کا تو نہیں بگاڑ سکتا کچھ 
..................جمہوریت کے ہی راز  افشاں کر کیوں نہیں جاتا 
...............بقول جاوید .تو نے ڈال رکھا ہے قوم کو بھول  بھلیوں  میں  
..............آ  سامنے یا  بتا  نظریہ  ضرورت کا شر کیوں نہیں جاتا 
..........................جاوید اقبال چیمہ ..میلان ..اطالیہ 
..............٠٠٣٩..٣٢٠...٣٣٧....٣٣٣٩................

Sunday, September 22, 2013

............................نواز شریف کی سکیمیں ........................
...........اگر میرے ملک کے وزیر اعظم  نے عوام  کے ساتھ مخلص ہونے کا یہ ثبوت  دیا ہے ..کہ عوام سے اپنی سکیموں کے بارے میں راۓ  طلب کی ہے ..تو میرا فرض بنتا ہے کہ اپنی راۓ  کو بیوروکریسی کی ردی کی ٹوکری تک ضرور پنچاؤں ..جنہوں نے میاں  صاحب کو یہ سیاسی نمبر بنانے کی سکیموں کے بارے میں پٹی  پڑھائی  ہے ..... اس  ملک کی یہی بد قسمتی ہے ..کہ جو بھی آتا ہے اس کو بیوروکریسی نئی  نئی پٹیاں  پڑھاتی رہتی ہے ....٦٥ سالوں سے یہی ہو رہا ہے ....اور یہی ہوتا رہے گا ..جب تک نظام تبدیل نہیں ہوتا ....ضرورت نظام کو تبدیل کرنے کی ہے ...تاکہ  نوجوان کو پتہ ہو کہ جب وہ سکول . کالج  یا  یونیورسٹی سے باہر نکل کر اپنے روزگار کی طرف رجوح کرنا چاہتا ہے ..تو اسے کون سا دروازہ کھٹکھٹانا ہے ..بس وہ  سیدھا  اپنے مقام پر چلا جاۓ ..نہ کہ سیاسی گوماشتوں کے بنگلوں پر سجدہ کرتا رہے اور دھکے کھاتا کھاتا چور ڈاکو بننے پر مجبور ہو جاۓ ....٦٥ سالوں میں کبھی تندور روٹی سکیم ..کبھی ٹیکسی سکیم .کبھی بینظیر سکیم ..کبھی لیپ ٹاپ ..کبھی قرضے ..کبھی ٹریکٹر سکیم .........سب عارضی سکیمیں کیوں بنتی ہیں ..ہمارے  ہاں مستقل بنیادوں پر سکیمیں کیوں نہیں بنتیں ...یہ سب بیوروکریسی اور سیاستدانوں کی اجارہ داری کو قائم  رکھنے کے لئے ہوتا ہے ...اور صرف پاکستان کے خزانے کو نقصان پنچایا جاتا ہے ...یہ سیاسی رشوت ہے ..جو اپنی جیب سے نہیں ..بلکہ ملکی خزانے سے ادا کی جاتی ہے...یہ  سیاسی رشوت اور بیہودہ  سکیموں کا سلسلہ ایوب خان کے دور سے جاری ہے ...جس سے ملک کا بربادی والا جشن تا حال جاری ہے  .....میں نواز شریف صاحب سے یہ درخواست  کرتا ہوں .١..کہ قرضے اور پلاٹ  دینے کا سلسلہ مکمل طور پر بند کر دیا جاۓ ..قانون ہر ایک لئے برابر کر دو ..٢..یہ قرضے دینے والا کام ہر بینک آزادی کے ساتھ  پرائویٹ  طریقہ پر کرے ....حکومت کے خزانے سے نہیں ...٣....روزگار کے مواقیح حکومت پیدا کرے ...سڑکیں ..پل .نہریں..بجلی ..گیس ..ریلوے ..فیکٹریاں بناۓ یا پرائویٹ بنواۓ .....٤..حکومت یا تو یہ قانون بنا دے کہ ہر تعلیم سے فارغ ہونے والا اپنے علاقے کی یونین کونسل میں رپورٹ کرے ....ہر یونین کونسل اس کی ٹریننگ کا بدوبست کرے اور اس کو فارغ کرنے کے بعد اس کے باقائدہ محکمے میں بھیجنے کا بھی بندوبست کرے ...جو وظیفہ بھی دینا ہو وہ یونین کونسل کے ذریعہ  دیا جاۓ ....یا یونین کونسل اسے اپنے علاقے میں روزگار دے ..ورنہ وفاق سے سفارش کرے کہ نوجوان اس ٹیلنٹ کا ہے اسے ایڈجسٹ کیا جاۓ ...٥...یا پھر حکومت  فوجی ٹریننگ لازمی کر دے اور وہ فنڈ آرمی کے حوالے کر دے .....دو سال کی ٹریننگ کے بعد ہر بچے یا بچی کو اس کے محکمے میں جانے کا بندوبست کیا جاۓ ......بھر حال نظام تو آپ کو تبدیل کرنا ہو گا ...ورنہ لوگوں کو ان کاغذی کاروائیوں اور بیوروکریسی کی چالاکیوں اور سیاسی سفارشوں کی آگ میں نہ پھینکا جاۓ .....چند کو فایدہ ضرور مل جاۓ گا اور سیاسی سکور میں بھی اضافہ ہو جاۓ گا ..مگر خزانہ ضرور برباد ہو گا ..اور کچھ بیچارے میری طرح  سفارش ہی ڈھونڈتے ڈھونتے مر جایں  گے .....کیونکہ میرے گھر میں بھی تین ماسٹر ڈگری ہولڈر اور ایک بی .اے ..ہے ........بتا دو کیا بہتر ہے .....ایک مستقل قانون ہر کے لئے یا عارضی خانے پوری الیکشن  میں ذاتی مفادات کے لئے .....یہاں غریب پھر پیچھے رہ جاۓ گا اور سفارش والے قرضے لے بھی جایں گے اور ہڑپ بھی کر جایں گے ...میاں  صاحب کیوں کرتے ہو ظلم غریب پر ...اگر خدا نے تم کو پھر حکمران بنا دیا ہے ..تو اس فرسودہ نظام کو ہی بدل دو ....تاکہ ہر آدمی سفارش اور رشوت کے بغیر اپنا کام انجام تک پنچانے  میں کامیاب ہو سکے .....ان سکیموں سے کوئی فایدہ نہ ہو گا ..آئندہ کے لئے پلاننگ کرنا ہو گی ..منصوبے بنانے ہوں گے ..انویسٹمنٹ للانی ہو گی اور انویسٹمنٹ کرنا ہو گی ...پرایویٹ اداروں کو سہولتیں دینا ہوں گی ..انویسٹر کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی ...حکومت کے اداروں سے کرپشن ختم کرنا ہو گی ....اگر آپ زیادہ سے زیادہ منصوبے کاغذی کاروائی سے آگے لے کر جایں ....کام شروع ہوں گے تو روزگار ملے  گا ......اگر صرف منصوبے کاغذوں پر ہی رہے تو پھر عالمی بینک سے قرضے لے کر لیپ ٹاپ دینا کہاں کی عقلمندی ہے ...ایسے شوشے نہ جھوڑیں جایں اور نہ ایسی سکیموں کے ساتھ کھیلا  جاۓ ..جس سے خزانے کو نقصان پنچنے  کا عمل دخل ہو..................نہ بدلے جس سے نظام وہ انقلاب افکار نہیں ہوتا ..............................بہ جاۓ جو قوم کی خاطر وہ لہو بیکار نہیں ہوتا ...... ........جاوید اقبال چیمہ ..میلان ..اطالیہ .....٠٠٣٩..٣٢٠..٣٣٧..٣٣٣٩

Wednesday, September 18, 2013

.....................یہ جنگ ہماری نہیں دال میں کچھ کالا ہے  ..............................
..................جنرل اشفاق کیانی صاحب   جب کبھی بولتے ہیں  جمہوریت کے ٹھیکیداروں سے پوچھ کر نہیں بولتے ..ایک دفعہ وہ بولے تھے جب نیٹو کی سپلائی بند کروانے کا حکم صادر فرمایا تھا ...اور اب طالبان کے خلاف بولے ہیں ...دونوں دفعہ خاص محرکات تھے ...ورنہ زرداری صاحب کے دور میں بقول شیخ رشید کے فوجی افسران ستو پی چکے ہیں .....میں نے ٢٠٠٩ میں اپنی کچھ کتابیں افتخار چودھری اور کیانی صاحب اور فوجی جوانوں کے نام کر چکا ہوں ...جو کہ بڑی  مشکل سے راولپنڈی ..جنرل ہیڈ کوارٹر  میں بھی پنچا  چکا ہوں ...اپنی کتابوں میں  مشرف کے خلاف اور فوج کے حق میں کافی کچھ لکھا ...مگر میری سوچ یہ ہے کہ ہماری فوج کا مورال وہ نہیں رہا جو ١٩٦٥ تک تھا .....ضیاء اور مشرف کے ڈیلیور نہ کرنے کی وجہ سے فرق ضرور پڑھ چکا ہے ..کرپٹ سیاستدانوں کے ساتھ کام کر کر کے بھوت  کچھ دال میں کالا  شامل ہو چکا ہے ...پروفیشن اور پروفیشنل سے تھوڑا سا دور ہو چکے ہیں .....ورنہ یہ جنگجو دہشت گرد اور غدار  طالبان کے روپ میں ان کی مثال  ایسی  ہے ..جیسے کیا پدی کیا پدی  کا شوربہ .......میں نہیں مانتا کہ حسین حقانی ملک کے خلاف  بات    کرے اور ملک سے با عزت رخصت ہو جاۓ ..ریمنڈ ڈیوس کا ڈرامہ ہو جاۓ ...لاکھوں بکے ہووے غدار دندناتے پھر رہے ہوں لاکھوں عالمی  اداروں کے ایجنٹ یہاں پاکستان کے خلاف کام کر رہے ہوں ..مگر فوج کے علم میں نہ ہو اور اب بھی مذاکرات کو ناکام  کرنے کے لئے نیا کھیل کھیلا  گیا ہے .......بلوچستان میں سارے کھیل کھیلے جا رہے ہوں ...ناک کے نیچے اسلامآباد میں بھوت کچھ ہو رہا ہو کراچی میں اسلہ کے کنٹینر کی خرید و فروخت ہو رہی ہو . مگر فوج کے علم میں کچھ نہ ہو ...دہشت گردوں کے ٹھکانے سوات جیسے علاقے میں ہوں اور فوج بے بس ہو ..میں نہیں  تسلیم کرتا ....فوج پاکستانی ہو اور ہم کسی کی جنگ کو اپنی جنگ میں تبدیل کرنے کے باوجود اتنے سالوں سے لاشیں اٹھاتے پھریں ..اور ہم کو یہ بھی علم نہ ہو کہ یہ جنگ ہم کس کی کس مقصد کے لئے لڑ رہے ہیں ...اور کون ہے جو ان دہشت گردوں کو فنڈنگ کر رہا ہے ....میری فوج کو ہر بات کا علم ہے ...مگر دال میں کچھ کالا ہے ...جو یہ کہتے ہوۓ  دل  پر بوجھ محسوس کرتے ہیں ..................
....................یہ دہشت گرد ہے تمہارا .یہ جنگ ہماری نہیں ہے
...................تو خون  بھا رہا  ہے ہمارا . یہ جنگ ہماری نہیں ہے
..................یہ سازش  ہے تمہاری . یہ جنگ ہماری نہیں ہے
.................یہ  امتحان ہے ہمارا ...یہ جنگ ہماری نہیں ہے
.............................جاوید اقبال چیمہ ..میلان ..اطالیہ .....

Monday, September 16, 2013

.............................یورپ اور ہم .................................
.................نہ آپ مجھ پر کوئی فتواہ  صادر  کرنا اور نہ میں یورپ کی طرف داری کر رہا ہوں ...اور نہ میں یورپ کو تمام تر برائیوں کے ساتھ قبول کرتا ہوں ..اچھائیاں اور برائیاں ہر جگہ موجود ہیں ...مگر افسوس کے ساتھ کہ رہا ہوں ..بلکہ معذرت  کے ساتھ بھی کہ ہم میں برائیاں زیادہ ہو چکی ہیں ...تفصیل میں نہیں جانا چاہتا ..آج جب گھر سے نکلا تو ذہن بلکل شفاف تھا ...صرف اپنے بیٹے کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ وہ دو دن سے سویڈن گیا ہوا ہے مگر فون پر رابطہ نہیں کیا صرف میسج بیجھ کر  ذمہ داری پوری کر چکا ہے ..ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک سڑک کے ساتھ فٹ پاتھ پر کیا دیکھتا ہوں .کہ ایک لڑکی عریاں حالت میں ورزش کرتی چلی جا رہی ہے ..سنسان سڑک  ..سنسان علاقہ ..اتوار  کا دن ..نہ بندہ نہ بندے کی ذات ...نہ کوئی ٹریفک ..کہ اچانک مجھے پانچ سال کی  معصوم بچی کی یاد آ گئی ..جسے میں بھولنا چاہتا تھا مگر کوشش کے باوجود نہ بھول سکا ..کیونکہ کل ایک اٹالین نے میری پوری قوم کو اور مجھے اس واقعہ پر گالیاں نکالی تھیں ..جس کو میں نے  خندہ    پیشانی سے سن تو لیا تھا مگر  بھول نہیں سکا تھا ...کیونکہ میڈیا اتنا طاقتور ہو چکا ہے کہ پل پل کی خبر پوری دنیا میں آگ کی طرح پھیل  جاتی ہے ...اس وقت میڈیا جس کو چاہے ہیرو بنا دے جس کو چاہے زیرو ....میرے  جیسے لوگ اسی لئے اتنی کتابیں پردیس میں بیٹھ کر لکھنے  کے باوجود زیرو ہیں ..کیونکہ میڈیا کے ناخداؤں کو میں خوش نہیں کر سکتا اور پنچ بھی نہیں ہے ....بھر حال بات اس درندگی کی ہو رہی تھی ..جو اس بچی کے ساتھ ہوئی ...اور موازنہ اٹالین عریاں لڑکی کی کر رہا تھا ..کہ پاکستان میں ہزاروں واقعات باعزت عورتوں کے ساتھ ہو چکے ہیں ..جن کو اکیلا دیکھ کر نفسی بےغیرت خواہش کے لئے اٹھا لیا جاتا ہے ..مگر یورپ میں کوئی ایسا نہیں کرتا ..کیا وجہ ہے ..اس لئے یہاں کوئی کن ٹوٹا بدمعاش نہیں ہے ..یہ الگ لکھوں گا ..مگر فوری طور مجھے اپنی ایک تحریر یاد آ  گئی ..جو میں نے ٢٠٠٩ میں اسی طرح کے ہونے والے ایک واقعات کے بارے میں لکھی تھی ..کتاب کا نام مجھے یاد نہ تھا ..اس لئے بڑی مشکل سے اپنی ویب سایٹ پر تلاش کیا ..اس میں مزید ترمیم اور اضافہ کرنا چاہتا تھا ..مگر اس وقت ووہی نقل کر کے آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ...کل اضافہ کے ساتھ لکھوں گا ..اس دعا  کے ساتھ کہ اللہ کرے  بچی تندرست ہو جاۓ اور والدین کو انصاف مل جاۓ ..اور معاشرے کو آخرت کی فکر مل جاۓ اور حکمران کو کرپشن سے فرصت  مل جاۓ ...............یورپ اور ہم ....میری کتاب ..انقلاب کارواں ..صفہ ٦٤ ..............درندگی ہوس کا یہاں شاہکار نہیں ہوتا
..................امیری غریبی کا دھندہ سرے بازار نہیں ہوتا
..................یورپ میں سیکس ہوتا ہے زنا کار نہیں ہوتا
................میرے ہاں زنا بلجبر ہوتا ہے پیار  نہیں  ہوتا
...............پیسے سے چند لمحے خریدے جاتے  ہیں
.............ہماری طرح عزت کا  خریدار  نہیں  ہوتا
............نہیں کرتا کوئی چودہ سالہ لڑکی سے زنا
...........اپنوں کا ہے کردار .شیوہ اغیار نہیں ہوتا
.............بجھاتے ہیں خواہشات کی آگ  حدود میں رہ کے
............وڈیرے جیسا کوئی اغوا  کا  کاروبار  نہیں  ہوتا
.................یہاں نظام  ہے اور اس  کی پاسداری  ہے
...............قانون  کو کسی چودھری سے سروکار نہیں ہوتا
...............نہیں بدلتا کوئی اپنی مرضی  سے قانون  یہاں
.............. فرعون کے ظلم  کا خنجر  یہاں  آر  پار   نہیں  ہوتا
..............چغل خوری .حسد بغض  کے  گر  تو  سکھاۓ  ہم نے
............ یورپ تو ہماری اصلیت سے بر سرے پیکار  نہیں ہوتا
............ویلفیئر فنڈ کے  بہانے  بھی  کئی   گل  کھلاۓ  ہم نے
............یہاں  مسلمان ہی مسلمان  سے  وفادار  نہیں  ہوتا
.............ہوتے  ہیں ووٹنگ  اور الیکشن  بھی  یہاں  جاوید
............کلانشنکوف اور  کروڑوں  کا کوئی کاروبار نہیں ہوتا
.......................جاوید اقبال چیمہ ..میلان ..اطالیہ ........
..........٠٠٣٩..٣٢٠...٣٣٧...٣٣٣٩.....

Saturday, September 14, 2013

        ......حکمران ..........                                                         .............پاکستان کی خبروں  پر اگر کوئی کالم لکھنا چاہے تو پریشان  ہو جاتا ہے کےہ کس موضوع پر لکھے ..اتنے واقعات ایک ایک دن میں ظہور پزیر ہوتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.....کل  ہی ابھی انہونیوں  کے بارے  میں لکھا اور ایک اور انوکھی انہونی ہو گئی ..پانچ سال کی بچی سے زیادتی ....شیطان بھی پناہ مانگ رہا ہو گا ...واہ  میرے اسلامی جمہوریہ پاکستان ..تجھے کس کی نظر لگ گئی  ہے ......سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہم واقیی مسلمان ہیں ...جب بات تبصروں ..تجزیوں اور محرکات پر آتی ہے ..تو کئی  سوال اٹھتے ہیں ...گو کہ بھوت ساری وجوہات اس کے پیچھے کارفرما ہیں ....مصلاً ..دین سے دوری ..علما  کا کردار ..خطبے ..فرسٹریشن ..انٹرنیٹ ..فحاشی ..معاشرے کی بے راہ روی ..بیروزگاری .حلال حرام کی کمائی  میں تمیز نہ کرنا ..رشوت اور ناجایز کی کمائی ..قانون کی گرفت نہ ہونا ..والدین کی تربیت نہ ہونے کے برابر ..کچھ دولت کا یا چودھراہٹ کا نشہ ..اور کچھ حکمرانوں کی ٦٥ سالوں سے مہربانیوں کا نتیجہ ہے ...کہ میرے حکمران نے ہم کو غلط کاموں  میں مصروف رکھنے کے لئے روزگار کا بندوبست ہی نہیں کیا ہے ...تو ہمارے پاس غلط منصوبے بنانے اور ہر طرح  کی فلمیں دیکھنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی کام ہی نہیں ہے ...ڈاکے ماریں گے .اغوا  کریں گے ...دولت اور نہ ختم ہونے والی ہر  خواہشات  کا  پیچھا  کریں گے ..کیونکہ حکومت نے تو ہر جگہ ہر محکمہ کے اوپر اپنے آدمیوں کو مال بنانے کے لئے لگایا ہوا ہے ..ان کو عوام  کی جوانوں کی فلاح و بہبود سے کوئی غرض نہیں ..حتہ کہ سپورٹس اور گراؤنڈ کا بھی کوئی انتظام نہ ہے ...اس لئے ٹیلینٹ بغیرتیوں  کی طرف راغب ہے اور زایاح ہو رہا ہے ..کیونکہ ہر علاقے میں جو سپورٹس کمیٹی کے سربراہ صاحبان ہیں ..ان کا کردار ہمیشہ لوٹ مار اور فنڈ کو خرد برد کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں دیکھا ..میں  اپنی ٦٠ سالوں کی زندگی میں اتنے سپورٹس کے سربراہان کو جانتا ہوں ..جن کے نام نہیں لکھ سکتا ..مگر وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ انہوں نے صرف فنڈ ہضم  کئے ..نوجوان کے لئے کوئی کردار ادا نہیں کیا ..بلکہ اس خرد برد میں علاقے کا ڈپٹی کمشنر بھی ماشااللہ اتنا ہی ذمہ دار ہے ..کیونکہ یہ لوگ سیاسی پشت پناہی پر مسلط کیے  جاتے ہیں ..اب یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی کہ پاکستان  میں ہمیشہ سے ہر سیاستدان نے یہی کردار ادا کیا ہے ..آج اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کسی کی عزت محفوظ نہیں ہے ......میرا آخر میں یہی تجزیہ ہے ..کہ بد کردار حکمران  ہی   سارے واقعات کا ذمہ دار ہے ....حکمران نظام بدل سکتا ہے ..قانون بنا سکتا ہے ..سخت سے سخت سزا دے سکتا ہے ..کیونکہ حکمران غریب کو انصاف دینے میں مکمل ناکام ہو چکا ہے ..اس لئے اس طرح  کے واقعات جنم لے رہے ہیں ..اور ان میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے ...کیونکہ حکمران کو بھی اقتدار اور کرپشن سے غرض ہے ...حکمران اپنی خواہشات پر نظر ثانی کر لے تو شاید عوام بھی سدھر جاۓ ...جزا اور سزا کا جس معاشرے میں عمل دخل  حکمران سے نکل جاۓ ..وہاں عوام کیا کرے گی ...یہی ہو گا اور مزید ہو گا ....کیونکہ جس دفتر کا باس رشوت لیتا ہو وہاں کلرک کو الزام مت دو ....جب فون پر تھانیدار حوالات میں بند بےقصور کے خاندان سے ٢ لاکھ روپے رشوت مانگ رہا ہو گا تو اس معاشرے میں ہر برائی  جنم لے گی ...انصاف ....احتساب ....حکمران اپنے اوپر لاگو کر لے ...ورنہ اس ملک میں انقلاب کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہے .....اور اب آنے والا انقلاب جالب کی سوچ سے بڑھ کر آے  گا ...میری سوچ ہے ...کہ ..........آنے والا انقلاب اب تجھے بتا  کے آے  گا
..............آنے سے پہلے تیرے اندر ہل چل مچا کے آے  گا
...............اب  تاج   اچھالے   نہیں   جایں   گے
............اب کی بار تاج و تخت  جلا  کے آے  گا
........................................جاوید اقبال چیمہ ...میلان ...اطالیہ ......

Thursday, September 12, 2013

.....................................انہونی پے  انہونی ........................
................دیکھ میرے وطن میں کیسی  کسی انہونیاں اور کہانیاں جنم لیتی ہیں ...کبھی تیل میں ملاوٹ ..کبھی چینی .مرچ میں ملاوٹ .کبھی حرام گوشت کھلانے . مردار کھلانے کی کہانیاں .کبھی قبر کی بے حرمتی .کبھی لاش کی بے حرمتی ...خیر اب تو رشتوں میں بھی ملاوٹ ہے ...ہر رشتہ مادیت پرستی کے راستے کی طرف جاتا نظر آتا ہے ..غرض کہ اتنی انہونیاں ہوتی جا رہی ہیں ..کہ اگر ایک ایک کو لکھنا چاہوں ..تو کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں ...ایک ایک سیاستدان ..اور ہر اینکر  کے منہ سے نکلے ہوۓ ہر موتی پر کروڑوں ورد بھی کر دوں ..تو پھر بھی وہ موتی پاک صاف شاید نہ ہونے پاۓ ..ایک اینکر کہ رہا تھا ..کہ یورپ میں رہنے والے حرام کی کمائی جیب میں ڈالے ہلال گوشت کی دکانیں تلاش کرتے ہیں ..واہ اینکر صاحب تمہاری سوچ اور لاعلمی پر لعنت ..اگر میں یورپ اور پاکستانی معاشرے پر لکھنا شروع کر دوں ..تو موازنے پر پاکستان بھوت پیچھے رہ جاۓ گا ...اور میرے اوپر فتوے لگ جانے کا اندیشہ ہے ...ویسے میں نے اپنی کتابوں میں کافی کچھ اس قوم کے لئے لکھا ہوا ہے ..میری ویب پر وزٹ  کر لیں ..کل بھی ایک انہونی ہوئی ...ایک اینکر  ایک انسانی حقوق کی علمبردار سے سوال کر رہا تھا کہ  دریاۓ راوی  میں ایک باپ اپنی بیٹی کو بے رحم پانی کی موجوں میں ڈال کر چلا گیا ....انسانی حقوق والی نے ساری  تقریر عورت کے حقوق پر کر دی ..مگر اینکر بھی شاید بےحسی  کا مظاھرہ کس رشتے کی بنیاد پر کر گیا ..ورنہ اصل حقیقت کا کس کو علم نہ تھا ..ہم بھی حکمران کی طرح  بے حس ہوتے جا رہے ہیں اور دوسرے رخ کو اجاگر کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں یا نہ جانے کس کو خوش کرنا مقصود ہوتا ہے ....کیونکہ اگر باپ کی آہوزاری پر بھی نظر رکھیں تو اصل حقیقت غربت بھی ہے ..اگر آپ اس کو جہالت  یا کوئی بھی رنگ دے لیں تو مجھے کوئی عتراض  نہ ہے ..مگر ایک بات میں واضح کر دینا چاہتا ہوں ...کہ اچھے برے لوگ  ہر  جگہ پر ہیں ...مگر بات حکمران کی نا اہلی پر جا کر ختم ہوتی ہے ...حکمران کی بد دیانتی .اقرباپروری اور ہر قانون کو گھر کی لونڈی سمجھنے پر ختم ہوتی ہے ...معاشرے کا بگاڑ صرف عوام کا فعل  نہیں ہے ..اس میں حکمران کی بے راہروی مکمل طور پر شامل ہے ...٦٥ سالوں سے حکمران نے کیا ڈیلیور کیا ہے ..سکولوں میں گدھے باندھے ہیں ..غربت دی ہے ..جہالت دی ہے .مہنگائی   بے روزگاری اور لا قانونیت دی ہے ..سارے  بگاڑ  کی جڑھ پیٹ کی آگ ہے ..بھوک و ننگ ہے ..جس کے گھر دانے اس کے کھلے  بھی سیانے ....جن گھروں میں خوشحالی ہے ..وہاں جھگڑے کم ہوتے ہیں ..غریب کو بھی اگر عزت کی روٹی دو وقت کی ملتی رہے اور حکمران کی طرف سے انصاف ملنے کی امید ہو ..تو ایسے واقعات اور دوسرے جرائم میں کمی ہو سکتی ہے ....بات قانون اور گرفت کی ہے ..یورپ میں پوری دنیا سے کن ٹوٹے بدمعاش آتے ہیں ..مگر قانون کی گرفت ان کے کن کاٹ دیتی ہے ..یہاں بھی دنیا کا ہر برا کام ہوتا ہے ..مگر وہ انہونیاں  یہاں نہیں ہوتیں جو پاکستان میں ہوتی ہیں ...یہاں نہ کوئی تیرہ سال کی بچی سے زنا کرتا ہے اور نہ باپ اپنے بیٹے کا اور نہ بیٹا   اپنے باپ کا مادیت پرستی میں گلہ کاٹتا ہے ......
...................جاوید اقبال چیمہ ...میلان......اطالیہ .......

،،،،،،،،،،، ، ، ،، ، ،،،کیا ہے مجھ میں ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
،،،،،،،،،،، لگتا  ہے  رقص  کرتی  ہے آگہی  مجھ  میں
،،،،،،،،،،،کہاں ہوں شاعر ، کہاں ہے شاعری مجھ میں
،،،،،،،،،، گر نہ ہوتا  دکھ  درد ، جزبہ حب ال وطنی
،،،،،،،،،،کہاں  اٹھاتا  قلم کہاں آتی  کالم نگاری مجھ میں
،،،،،،،،،ٹھوکروں  سے  پتھر  جب بن  گیا  میں
،،،،،،،،.تو  سما  گئی  نفرتوں جیسی سختی مجھ میں
،،،،،،،،،، جھوٹے ظالم  کو  بدکردار ظالم جو  کہتا ہوں
،،،،،،،،،بس  اتنی سی آ  گئی ہے  روشنی  مجھ میں
،،،،،،،،،،کرچیاں کرچیاں ہو چکا ہوں پھر بھی
،،،،،،،،،رہ گئی ہیں کچھ  صورتیں دھندلی مجھ میں
،،،،،،،،،،ناحق قتل و غارت گری  سے لڑتا  ہوں ہر  روز
،،،،،،،،،جھانک کر دیکھ وہ میدان کربلا  کبھی مجھ میں
،،،،،،،،،سہتا اور سنتا ہوں وہ بھی ہر روز
،،،،،،،،،جو دکھوں کی ہے راگنی مجھ میں
،،،،،،،،،،،در در ٹھوکریں کھاتے ہیں جس کے لئے
،،،،،،،،،،اب کہاں ہے وہ چاہت ے زندگی مجھ میں
،،،،،،،،،،ساری زندگی نہیں ڈھلا منظر تپش ے سورج
،،،،،،،،،،دن  کو بھی رات  جیسے  سما گئی  مجھ میں
،،،،،،،،،،ڈھونڈتا رہا دوست  میں دوستی کو جاوید
،،،،،،،،،،کہاں ہے آگہی کہاں شعور آشنائی مجھ میں
،،،،،،،،،،،،،،،،،،جاوید اقبال چیمہ ،،،میلان،،اطالیہ،،،،،،،
......................پاگل ہے جاوید ..................
....................پاگل ہے جاوید کہ انقلاب دعا مانگ رہا ہے
...................چوروں .لٹیروں  سے انقلاب وفا مانگ رہا ہے
..............................وہ جو ظلم بھی سہتے ہیں بھوک و ننگ میں
.............................دیکھو جاوید ان سے بھی انقلاب جفا مانگ رہا ہے
................جاوید یہ تیرا دل  کوئی  رہزن   ہے     یا   رہبر  
..............جو ظلمت کے اندھیروں سے بھی انقلاب ضیاء مانگ رہا ہے
...........................دیکھ  اندھیر نگری اور لاشوں کو ہر طرف
.........................جاوید تو ان لاشوں سے انقلاب قضا  مانگ رہا ہے
.............جاوید دیکھ حکمرانوں کے طوفانی دوروں اور بیانات کو
............پھر بھی پاگل آغوش طوفان میں انقلاب قبا مانگ رہا ہے
.....................جس سے آ جاۓ جرات  میرے  حکمران کے اندر
...................پلا دوں حکمران کو بس ایسی  کوئی دوا مانگ رہا ہے
...........سدا رہے سلامت میرا وطن میری  دھرتی  میرا پاکستان
.........جاوید. عمر فاروق یا حضرت علی  جیسا شیر خدا مانگ رہا ہے
..........................جاوید اقبال چیمہ ....میلان ..اطالیہ 

Monday, September 9, 2013

..........................اے . پی .سی ..بے فایدہ ................
................پہلے  کی طرح  کھاؤ . پیو ..موج اڑاؤ .....نہ کچھ ہونا ہے اور نہ کوئی نتیجہ نکلنا ہے ...ڈرون  کو تم فوری طور پر روک نہیں سکتے ..نیٹو سے تم نکل نہیں سکتے ....نیٹو سپلائی تم  بند نہیں کر سکتے ..ملک  میں غیر قانونی  اجنسیوں  کو تم نکال نہیں سکتے ..غداروں  اور ٹارگٹ کلر کو تم پھانسی پر نہیں لٹکا سکتے ..انڈیا  کی مداخلت کو تم روک نہیں سکتے ...بلوچستان اور کراچی میں مشرقی پاکستان والا کھیل جاری ہے ..اس کو تم کنٹرول نہیں کر سکتے .....پنجاب میں اغوا اور ڈاکے تم روک نہیں سکے ...بھوت ساری  چیزیں جو تمہارے بس میں ہیں ان کو تم کنٹرول نہیں کر سکے ..طالبان کو کیا کنٹرول کرو گے ....طالبان کو جو امداد دے رہا ہے ...اسلہ دے رہا ہے ..جدید ٹیکنولوجی دے رہا ہے ...اتنا نیٹ ورک دے رہا ہے ..اس کے خلاف بات کرتے وقت تمہارے ہاتھ پاؤں کامپتے ہیں ....تم تو سیاسی بیغرتوں  کے چمچوں کو چھوڑ  رہے ہو جو دہشت گردی ..بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں ....تم تو ایک علاقے کے مالک  تھانیدار کو کنٹرول نہیں کر سکے . جس کی ناک کے نیچے اور سرپرستی میں ہر کام ہو رہا ہے ..تم طالبان کو کیا کنٹرول کرو گے ...تم تو اسلہ کے کنٹینر  خود غائب  کرتے اور کرواتے ہو اور بازار میں فروخت کرتے ہو ....ہمارے اپنے ملازم شامل ہیں ...کیا طالبان بیروزگاری اور مہنگائی  کے ذمہ دار ہیں ..کیا بجلی اور گیس کی  چوری  اور مہنگائی  میں طالبان ہیں ....کیا نظام تبدیل نہ کرنے میں طالبان کا قصور ہے ...کیا طالبان نے کھا تھا ..کہ تم اس جنگ میں چھلانگ لگاو جو تمہاری نہیں ہے .....کیا طالبان کہتے ہیں کہ کالاباغ ڈیم اور بھاشا ڈیم نہ بناؤ ....کیا تھر  کے علاقے میں کوئلے  سے بجلی پیدا  کرنے سے ہم کو طالبان نے روک رکھا ہے ..کیا ایران سے گیس لینے میں طالبان رکاوٹ ہیں .....کیا روٹی تندور اور لیپ ٹاپ طالبان کے کہنے پر کیا گیا .....جو ہم کرنا چاہتے ہیں وہ کرتے ہیں ..جو ذاتی اور کرسی کے مفاد میں نہیں ہوتا ..وہ نہیں کرتے .بلکہ اس پر بہانے بناتے ہیں ..میٹنگ کرتے ہیں اجلاس پر اجلاس بلاتے ہیں ..جو کام نہیں کرنا چاہتا میرا حکمران ..اس کو کمیٹیوں کے سپرد کر دیتا ہے ...میرا حکمران بھگیوں  پر سفر کرتا ہے ..شہنشاہوں کی طرح  زندگی بسر کرتا ہے ..پاکستان سے مراعات  لیتا ہے ...بلو پاسپورٹ حاصل کرتا ہے ..جب اور جہاں جانا چاہتا ہے ..جاتا ہے عیاشی کرتا ہے اور قوم کی خاطر  دورے کرتا ہے سیر سپاٹے کرتا ہے ......کوئی ڈنر دیتا ہے کوئی  کرسی پر بیٹھنے پر کھانے  کھلاتا  ہے اور کوئی  کرسی خالی کرنے پر  کھانے تقسیم کرتا ہے ...بیڑہ غرق تو ملک کے خزانے کا ہوتا ہے ...اور جو میرے بھائی صحافی بھی کھاتے پیتے  ہیں ..ہم نے بھی کبھی یہ نہیں کھا کہ اس طرح قوم کے خون سے یہ ہولی نہیں کھیلنی چاہئے ...یہ سب اجلاس صرف بکواس ہیں ..اصل مسلۂ  اس ملک کا نظام ہے ....جو تبدیل کرنے کے بغیر کچھ بھی انقلاب نہیں آئے  گا ....جب تک بیوروکریسی ..جاگیردار ..وڈیرے  کو لگام نہیں ڈالی جاتی ..تب تک کچھ تبدیل نہیں ہو گا ...اور یہ کام صرف انقلاب کرے گا ..ووہی نظام کو تبدیل کرے گا ...اور جرات والے لیڈر پیدا کرے گا ...جو قوم کی خاطر  فیصلے کرنے میں کسی  کے محتاج نہیں ہوں گے .....وہ کون سا  افسر اور سیاسدان ہے جو صحافیوں  کو اپنی جیب سے کھانے  کھلاتا  ہے ...اور خزانے کو نقصان نہیں پنچاتا ..........اس نظام کی یہ خوبی ہے کہ زرداری  صاحب کو اتنے   میڈل  دئے  جا رہے ہیں ..یہ ہمارے نظام کی خوبی ہے کہ ہم بڑی  مہارت  سے غداروں کو بھی پاکستانی جھنڈے میں دفنا دیتے ہیں .....جب تک یہ ہوتا رہے گا ...ملک کا کوئی مسلۂ  حل نہیں ہو سکتا ....جب تک احتساب نہیں ہو گا ..سب کے ساتھ انصاف نہیں ہو گا ..اس ملک کے حالات نہیں بدلیں گے .......حکمران اس ملک کے ساتھ کھیلتا رہے گا ......انقلاب ..انقلاب ....صرف انقلاب  ہی نظام تبدیل کرے گا .... جو چوروں  ..لٹیروں ..بغیرتوں غداروں اور دہشت گردوں کو لٹکاۓ  گا .......جو مرضی کر لو ....کوئی اچھا نتیجہ نہیں نکلے گا ..........جاوید اقبال چیمہ ..میلان ..اطالیہ ........