Mission


Inqelaab E Zamana

About Me

My photo
I am a simple human being, down to earth, hunger, criminal justice and anti human activities bugs me. I hate nothing but discrimination on bases of color, sex and nationality on earth as I believe We all are common humans.

Sunday, April 26, 2015

.......گوجرانوالہ الیکشن اور قاسم وڑائچ..........
......قصیدہ لکھنا نہ میرا شیوا ہے اور نہ میرا پیشہ .میں انقلابی آدمی ہوں .میرا تلخ حقایق پر لکھنا بڑے بڑے برجوں کے لئے لمحۂ فکریہ ہوتا ہے .اور اسی وجہ سے لوگ میری وجہ سے ہر میٹنگ میں پریشان ہوتے ہیں .سچ بولنا .سچ لکھنا .سچ سننا .اس دور کا سب سے زیادہ تکلیف دہ معاملہ ہے .گوجرانوالہ کی ڈائری لکھتے ہووے مجھ کو تلخ حقیقتوں سے واسطہ پڑتا رہا ہے .پچھلے دنوں لکھا کہ گوجرانوالہ کس کا گھڑھ ہے .تو بھی کچھ لوگوں کو ناگوار گزرا .اور کچھ نے کہ .کہ ہمارا نام کیوں نہیں لکھا ہماری کارکردگی کیوں نہیں لکھی .تو میں نے جواب دیا تھا کہ ہر ایک کا نام لکھنا کالم نگاری نہیں ہوتی .قصیدہ خوانی ہوتی ہے .تو آج بھی یہی ضروری سمجھتا ہوں کہ گوجرانوالہ کی تحریک انصاف کی کارکردگی کو سراہوں .مگر کس کس نے کیا کیا کردار ادا کیا .نام سب کے لکھنے ضروری نہیں .مگر اتنا ضرور ہے کہ گوجرانوالہ میں عھدیداروں کے اختلافات ہونے کے باوجود سارے پاکستان سے مجموئی طور پر گوجرانوالہ کی کارکردگی بہتر رہی .گو کہ کلین سویپ تو نہ کر سکی .مگر پھر بھی دوسرے علاقوں سے کافی بہتر پوزیشن لینے میں کامیاب ہو گئی.کافی غلطیاں کرنے کے باوجود .اگر .پی.ٹی.آئی ..وہ غلطیاں گوجرانوالہ میں نہ کرتی .تو کلین سویپ کا تاج اپنے سر سجا چکی ہوتی .مگر پھر بھی مبارک باد کی مستحق ہے گوجرانوالہ کی لیڈر شپ .جس میں ایک نام نمایاں ہے .جس کو لاہور بلا کر خاص ذمہ داری سونپی گئی تھی .وہ ہیں گوجرانوالہ .پی.ٹی.آئی .کے لیڈر قاسم وڑائچ صاحب .جن کی دن رات کی انتھک محنت کا نتیجہ یہ ملا .کہ پارٹی کا وقار پورے پاکستان میں نمایاں رہا .الیکشن کے دوران اور الیکشن سے پہلے کافی ایسے واقعات قاسم وڑایچ صاحب کے ساتھ پیش آے.اور ان کی لاہور طلبی کیوں ہوئی .یہ سب واقعات اور کہانیاں آپ کو اگلی قسط میں بتاؤں گا .کافی رازوں سے پردہ اٹھاؤں گا .مگر لیڈر شپ کی اجازت سے .کیونکہ اختلافات کو مزید ہوا دینا میرا پیشہ نہیں ہے .جو سچ ہے وہ آپ کے سامنے عنقریب لاؤں گا .کیونکہ پنجاب سے یہ کارکردگی کسی علاقے کی نہیں ہے .مگر پی.ٹی.آئی .کے لئے لمحۂ فکریہ ہے .کہ پھر بھی دوسرے نمبر پر ہے .اور پارٹی کو قاسم وڑائچ صاحب جیسے ورکروں کی مزید ضرورت ہے ...ورنہ عمران خان کا وزیر اعظم بننا اور نظام کی تبدیلی ایک خواب رہ جاۓ گا .کیونکہ عمران خان کے بغیر کوئی نظام تبدیل نہیں کر سکتا .اتنی جرات .بردباری .ایمانداری .ہر کسی کے پاس نہیں .واحد آدمی ہے بھٹو کے بعد جو ان باطل قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہا ہے .بھر حال قاسم وڑائچ جیسے ورکر کو سلام پیش کرتا ہوں .کیونکہ میں نے اپنی ١٢ کتابوں میں بار بار اس طرف اشارہ کیا .کہ پاکستان کو نظام تبدیل کرنے کے لئے ایک سبز انقلاب کی ضرورت ہے ...اور لکھا ٹایٹل پر ..کہ....نہ بدلے جس سے نظام وہ انقلاب افکار نہیں ہوتا ..بہہ جاۓ جو قوم کی خاطر وہ لہو بیکار نہیں ہوتا .....جاوید اقبال چیمہ ..اٹلی والا .....٠٠٩٢٣٠٢٦٢٣٤٧٨٨ 
......پی..ٹی.آئی..کا  ورکر اور سیاسی تجزیہ ..........
.....جب ہم نے نامور کالم نگاروں .تجزیہ نگاروں کو پڑھ لیا .سن لیا .تو ہماری تسلی نہ ہوئی .اس تشنگی کو دور کرنے کے لئے ہم نے ایک .پی.ٹی.آئی .کے ورکر سے رابطہ کیا .کہ اصل راز کی بات کیا ہے .تجزیہ کیا کہتا ہے .خیالات اور سوچ کیا کہتی ہے .تو ورکر بھوت دکھی ہو کر بولا کہ میں کنٹونمنٹ کے رزلٹ سے مطمئن نہیں ہوں .کیونکہ .پی.ٹی.آئی .کو کلین سویپ دیکھنا چاہتا تھا .یہ دوسرے نمبر پر آنا .پی.ٹی.آئی .کے شعور کی توہین ہے .اس طرح نظام کی تبدیلی کی منزل ہم سے دور ہوتی جا رہی ہے .بلکہ ہمارے آنگن سے بھی روٹھتی نظر آ رہی ہے .ہمارے ہاتھ سے نظام کی تبدیلی کی لکیریں مٹتی جا رہی ہیں .ورکر نے تو بڑی بڑی تلخ باتیں اور گر کی باتیں ہم کو بتا دیں ہیں .مگر ہم کو چند ایک نقطے نہ لکھنے کی بھی گزارش کر دی ہے .جو کہ سرا سر میری صحافت میری کالم نگاری کے لئے درست نہیں .مگر ورکر کی عزت کرنا .اور اس کا بھرم رکھنا بھی میری ذمہ داری ہے .تو چند خاص نقطے جو پارٹی کے لئے مفید ہیں وہ صرف پارٹی کے لیڈران کو ہی فون پر بتاۓ جا سکتے ہیں .باقی جو دکھ کی داستان ہے .وہ کچھ اس طرح ہے .کہ خدا نخواستہ اگر میرے لیڈر عمران خان کو کچھ ہو گیا تو پارٹی تتر بتر ہو جاۓ گی .اس کو سمبھالنے والا کوئی نہیں ہے .باقی جو لوگ جوک در جوک اپنے اپنے مفادات کے لئے پارٹی میں کود رہے ہیں .یہ لوٹے ہیں .اور ان سے پارٹی کو کوئی فایدہ اور نہ ورکر کو کوئی فایدہ ملے گا .بلکہ ان کی وجہ سے اختلافات بھی سامنے ہوں گے .لوگوں کی حق تلفیاں بھی ہوں گی .جو پارٹی کے لئے نقصان ہی نقصان ہو گا .کیونکہ نظریاتی کارکن دل برداشتہ ہوتا جا رہا ہے .کچھ کرنے کی ضرورت ہے .وہ تفصیل خفیہ رکھی جا رہی ہے .ورکر کے جزبات کی وجہ سے .کیونکہ .پی.ٹی.آئی .کا ورکر یہ سمجھنے سے قاصر ہے .کہ نون لیگ کی کارکردگی تو زرداری سے بھی کم ہے اور کرپشن زرداری سے بھی زیادہ ہے .تو پھر کنٹونمنٹ کے الیکشن میں کامیابی کی وجہ ..وجہ صرف پی.ٹی.آئی ..کے اندرونی حالات .اور یہی حالات رہے .تو ورکر پی.پی.پی.کے ورکر کی طرح مایوس ہو جاۓ گا ..پی.ٹی.آئی .کا گراف دن بدن نیچے چلا جاۓ گا .اگر بروقت ورکر کی آواز نہ سنی گئی تو....جاوید اقبال چیمہ ..اٹلی والا ..٠٠٩٢٣٠٢٦٢٣٤٧٨٨ 

Saturday, April 25, 2015

........کنٹونمنٹ الیکشن ..اور سیاست کے کھلاڑی .....
.......انقلاب زمانہ دیکھئے .کہ رنگ بدلتا ہے آسمان کیسے کیسے .کہ چند ایک تجزیہ نگاروں کی اداکاری بھی سیاسی اداکاروں کی طرح مکمل طور پر فلاپ ہو گئی.پنجاب میں نون لیگ .کراچی میں متحدہ .پشاور میں .پی.ٹی.آئی .مگر شعور نام کی چیز کافی حد دیکھنے کی ہم کو جو امید تھی .وہ نہیں دیکھ سکے .اس کا مطلب یہ ہے .کہ قوم کو ابھی مزید امتحانات سے گزرنا ہو گا .ابھی امتحان اور بھی ہیں .ابھی اس ہجوم کو .بھیڑ بکریوں کے ریوڑھ  کو متحد ہونے میں .قوم بننے میں وقت لگے گا .کافی وقت درکار ہے .ناانصافی .بددیانتی .کرپشن کی چکی  میں مزید پیسنا ہو گا .جماعت  اسلامی کو دوسروں سے اتحاد کی اور اپنے تنظیمی ڈھانچے کو مزید درست اور آسان بنانے کی ضرورت ہے .پی.پی.پی.کو کرپشن کا داغ دھونے کی ضرورت ہے .زرداری اور رحمان ملک سے نجات اور کسی ایماندار ورکر کو قیادت کی ذمہ داری دینے کی ضرورت ہے .تاکہ پی.پی.پی.ایک عام آدمی کی پارٹی بن سکے .اور جاگیرداروں .وڈیروں .سرمایا داروں کو نکال باہر کیا جاۓ .کیونکہ پی.پی.پی. کا مستقبل اب عام آدمی بن چکا ہے .اسی میں پی.پی.پی. کی بقا ہے ..ورنہ پاکستان میں کوئی عام آدمی پارٹی کا فعال ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے .رہا نون لیگ کا مستقبل تو وہ پنجاب کی حد تک کردار ابھی مزید چند سال بھی ادا کرتی رہی گی .کیونکہ پنجاب میں بھی وہ شعور نہیں آ سکا .جس کی ہم توقه کر رہے تھے .برادری ازم ابھی ہے .بدمعاشی کلچر ابھی ہے .پٹواری کلچر .اثرو رسوخ کلچر .سفارش .بد دیانتی .مافیا .جب تک ہے .چھانگا مانگا سیاست جب تک ہے .جب تک خادم اعلی کی فرونیت ہے .تب تک نون لیگ کا کردار رہے گا .نون لیگ کا کردار پنجاب میں مکمل ختم تب ہو گا جب پنجاب کے مزید صوبے بناۓ جایں گے .سارے پاکستان کو مزید صوبوں کی ضرورت ہے .مگر پنجاب کو خاص کر .کیونکہ دولت اور اقتدار کی بندر بانٹ نون والوں کے پاس ہے ..اب نون لیگ بلدیاتی انتخابات جلد کروا دے گی .کیونکہ اب نون کو یقین ہو چکا ہے جیت کا .چلو ایک لحاظ سے نون کا جتنا اچھا شگون ہے کہ اقتدار نچلی سطح پر منتقل ہو جاۓ گا .کیونکہ نون اگر نہ جیتی تو یہ کبھی بلدیاتی الیکشن نہ کرواتے .باقی رہا معاملہ پی.ٹی.آئی .کا تو سوچنے .سمجھنے .غور کرنے .اور غلطیوں کا ازالہ کرنے کا سنہری موقعہ ہے .میری سوچ کے مطابق .پی.ٹی.آئی .میں چند ایک خرابیاں ہیں جو شاید پی.ٹی.آئی .کے ٹھیکیدار یہ بات ماننے کے لئے تیار نہ ہوں .جب کہ اب تک آنکھیں کھل جانی چاہیں تھیں .مگر شاید پی.ٹی.آئی .والوں کا گھمنڈ ابھی ٹوٹا نہیں یا خواب غفلت سے ابھی بیدار نہیں ہووے .پہلی بات نوٹ کی جاۓ .کہ ابھی تک پی.ٹی.آئی .کو نظریاتی ووٹ .نظام کی تبدیلی کے ووٹ اور عمران خان کی بردباری کے ووٹ ملے ہیں .ہر شہر میں براجمان ٹھیکیداروں کی وجہ سے پارٹی کو نقصان ہو رہا ہے .پی.ٹی.آئی .کا ورکر یہ سمجھتا ہے کہ پی.ٹی.آئی .ایک عام آدمی پارٹی نہیں بن سکی .تنظیمی ڈھانچہ تباہ و برباد ہو چکا ہے .من پسند لوگوں کا راج ہے .ورکر کی کوئی عزت نہیں .پارٹی کے اندر اختلافات .گروپنگ .ہر شہر میں ہے .ہر کوئی اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بناۓ بیٹھا ہے .کسی گروپ کو مخدوم صاحب اور کسی گروپ کو اعجاز چودری چلا رہا ہے .پنجاب میں شکست کی وجہ ہی یہی ہے .ٹکٹوں کے وقت ورکر ہمیشہ نظر انداز اور مفاد پرست .قبضہ گروپ .مافیا حاوی .نظر آتا ہے .تنظیم سازی کوئی نہیں .جو کہ بلدیاتی سطح پر ہونی چاہئے .بس جب کوئی موقعہ آتا ہے .اجلاس بلا کر اپنی مرضی ٹھونس دی جاتی ہے .اجلاس .کارنر میٹنگ .مشاورت .کا عمل کہیں بھی نہیں ہے ..اب تک جو منظر نامہ سامنے ہے وہ آپ کو بتا چکا ہوں ..بلدیاتی الیکشن تک اگر یہی منظر نامہ رہتا ہے .تو الیکشن کے نتایج بھی یہی رہیں گے ...پاکستانیوں کے لئے .شعور والوں کے لئے .انصاف کی تلاش اور نظام کی تبدیلی والوں کے لئے لمحہ فکریہ ...باقی اگلی ملاقات پر انشااللہ ...جاوید اقبال چیمہ ..اٹلی والا ...٠٠٩٢٣٠٢٦٢٣٤٧٨٨ 

Wednesday, April 22, 2015

.......چائنا.پاکستان کے معاہدے .............
......انقلاب زمانہ دیکھئے .انویسٹمنٹ دیکھئے .معاہدے دیکھئے اور ہمارے قصیدہ خوانوں کا شور دیکھئے .٦٦ سالوں سے پاکستان کی تاریخ دیکھئے .معاہدے دیکھئے .انویسٹمنٹ دیکھئے .کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ دیکھئے .ہر حکمران کے ہر معاہدے پر ہر فیصلے پر ہر انویسٹمنٹ پر جو شور مچا یا مچایا گیا .اس کا نتیجہ بھی آپ کے سامنے ہے .بلیم گیم بھی آپ کے سامنے ہے .انویسٹمنٹ بھی آپ کے سامنے ہے .کمیشن بھی آپ کے سامنے ہے .اور ملکی حالت بھی آپ کے سامنے ہے .نہ بجلی .نہ گیس .اور بیروزگاری .مہنگائی.بھی آپ کے سامنے .مجھے یاد ہے ہر ہر حکمران کے تند و تیز بیانات اور منصوبوں کی تفصیل .ہر بات ہر منصوبہ ریکارڈ پر ہے .اور نظریہ ضرورت والوں کے پاس محفوظ بھی ہے .ذرا غور کریں کالا باغ ڈیم اور تھر کے  کوئلے والے منصوبوں پر .ایران سے گیس کی سپلائی پر .ضیاء کے مجاہدین پر غور کریں .مشرف اور امریکا کی دہشت گردی پر بھی غور کریں .امریکا کی امداد پر بھی غور کر لیں .انڈیا کے ساتھ تجارت .افغانستان کو راہداری .گوادر گوادر کا شور .پیٹرول کا نکلنا .معدنیات کا نکلنا .سونے .چاندی کے زخائر.منصوبوں پر غور کر لو .حکمران کے ناموں کی تختیوں پر غور کر لو .میرے نواز شریف اور زرداری کی پھرتیاں دیکھ لو .منصوبوں کا شور دیکھ لو اور بعد میں منصوبوں اور انویسٹمنٹ کا حشر دیکھ لو .نتیجہ دیکھ لو .دنیا کی انویسٹمنٹ پاکستان میں دیکھ لو اور میرے حکمرانوں کی انویسٹمنٹ دوبئی اور لندن میں دیکھ لو .واہ واہ کیا بات ہے .کیسا شور ہے .کیسے کیسے اس قوم کو بیوقوف بنایا جاتا ہے .نندی پر پراجیکٹ دیکھ لو .تندور روٹی دیکھ لو .پیلی ٹیکسی دیکھ لو .نجکاری کمشن دیکھ لو .مسلم کمرشل بینک دیکھ لو .ہمارے کارکردگی پر اشتہارات دیکھ لو .ذاتی فوٹو دیکھ لو .اخراجات دیکھ لو .میری پھرتیاں .اور شور و شرابہ دیکھ لو .میرے عشایے.میرے ظہرانے دیکھ لو .پی .آئی .اے.دیکھ لو .سٹیل مل دیکھ لو .معدنی زخائر دیکھ لو اور اپنی قوم کا حشر دیکھ لو .قوم کا مایوسی اور حکمران سے نا امیدی والا حقیقی چہرہ دیکھ لو .اور میرے کالا باغ ڈیم والے اور دوسرے منصوبوں کا حشر دیکھ لو .اور میرے حکمران کے معاہدے دیکھ لو .ہر معاہدہ قوم کی تقدیر بدلنے کا دعوه..مگر ہر معاہدہ حکمران کی بغیرتی کا منہ بولتا ثبوت..ابھی ابھی قطر کے ساتھ گیس والا معاہدہ دیکھ لو .اس کا حشر دیکھ لو .اس کا نقصان دیکھ لو .اس کی کمیشن دیکھ لو .اس کے کردار دیکھ لو اور میرے حکمران کا اصل چہرہ دیکھ لو .قوم کی بے حسی دیکھ لو ..پہلے امریکا کے معاہدوں کی تفصیل دیکھ لو .کتنا پیسہ آیا .کتنی امداد آئی .کتنی کہاں کہاں گئی.کتنی راہداری ملی .کتنی سڑکیں تباہ و برباد ہویں.دنیا میں دہشت گردی کی جنگ میں کتنے بدنام ہووے .کتنا نقصان اس قوم کو آج تک ہو رہا ہے .کتنا قرض لیا .کتنا قوم پر خرچ ہوا .کتنا حکمران کی جیب میں چلا گیا .ایک ایسی قوم کا ایسا حکمران خوش نصیب ہے .جو قرض کی قسط ملنے پر پوری دنیا میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑتا ہے .وہ ہر معاہدے پر صرف بغلیں ہی بجاۓ گا .اور کیا کرے گا .جتنے زیادہ معاہدے کرے گا .اتنی زیادہ کمشن وصول کرے گا .قوم کو ان منصوبوں سے کچھ ملے یا نہ ملے.مگر حکمران کو تو حصہ مل چکا .اب وہ منصوبہ اگر مزید ٦٦ سال کاغذوں میں ہی رہتا ہے تو حکمران کو کیا فرق پڑتا ہے .اس لئے بزرگ کہتے ہیں .مسجد بنانا کوئی کمال نہیں .مسجد کو آباد کرنا کمال ہے ..یہ چین کے معاہدوں کا چند دن شور رہے گا .جب تک کمیشن کی رقم منتقل نہیں ہو جاتی .پھر کہاں منصوبے اور کہاں کا شور ..یہ سیاسدانوں کی چالیں اور بیوروکریسی کی پھرتیاں دیکھنے کو ملتی ہیں .تم بھی دیکھو میں بھی دکھوں گا .کہ کتنے منصوبے بنتے ہیں اور رقم کہاں کہاں سے آتی اور جاتی ہے .کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکمران اپنی ہی دولت کو پاکستان منتقل کر کے منصوبے شروح کر دیتا .اور دنیا کے سامنے کشکول کو توڑ کر پاکستان کی عزت .غیرت.میں اضافہ کر دیتا .میرے خیال میں وہ دن پاکستان کی تاریخ میں سنہری دن ہوتا .وہ کامیابی کا دن ہوتا .دنیا کا کوئی ملک پاکستان کی تقدیر نہیں بدل سکتا .نہ کشکول کو بھر سکتا ہے .پاکستان کے کشکول کو صرف حکمران اور بیوروکریسی اپنی اہلیت سے .بردباری سے .ایمانداری سے .ملی غیرت سے بھر سکتی ہے .جس کا ہم نے خود جنازہ نکالا ہوا ہے .تو میرے پاکستانیو چین اور امریکا سے اتنی امیدیں مت وابستہ کرو .خدا اور نبی سے امیدیں وابستہ کرو .حکمران اپنے اندر اتنی اہلیت پیدا کرے .کہ خود انحصاری پر عمل کرے .اپنے زخائر کو ایمانداری .دیانتداری سے بروے کار لاؤ.چین .امریکا .کوریا اور جاپان وغیرہ نے دوسروں سے بھیک مانگ کر ترقی نہیں کی .بلکہ خود دنیا کو لوہا منوایا .حالانکہ ان کے پاس کوئی قاعد اعظم اور اقبال نہیں تھے .جبکہ ہمارے پاس وہ طاقت ہے .جو دنیا کے ہر ملک کے پاس نہیں ہے .ہم کو قران و سنت پر چلنے والا حکمران چاہئے .جس دن وہ مل گیا .ہمارے تمام مسایل حل ہو جایں گے .ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جایں گے اور دنیا ہمارے پاؤں کے نیچے .حکمران کا عمر فاروق .ابو بکر صدیق ہونا شرط ہے .یہ سیاست کے مکار .چالباز .کھلاڑی .اس ملک کی تقدیر کیا بدلیں گے .ان کو ملک سے زیادہ اپنا خاندان عزیز ہے .ملک کو سب سے زیادہ خطرہ کرپٹ حکمران سے ہے .کیونکہ پاکستان کا کشکول نہیں بھرا جا سکتا .کیونکہ ابھی تک ٦٦ سالوں سے میرے حکمران کا پیٹ نہیں بھرا جا سکا .تو میرے ملک کی تقدیر چین یا امریکا کا صدر کس طرح بدلے گا .اس لئے اتنا زیادہ شور مچانے کی اور خوش ہونے کی .بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں .کچھ بھی نہیں بدلے گا جب تک میرا حکمران اپنی ترجیحات نہیں بدلے گا اپنا قبلہ نہیں بدلے گا ...معذرت کے ساتھ ...جاوید اقبال چیمہ ..اٹلی والا ...٠٠٩٢٣٠٢٦٢٣٤٧٨٨ 
.......سیف ار رحمان اور انویسٹمنٹ ...............
......انقلاب زمانہ دیکھئے اور ہمارا طرز حکمرانی دیکھئے .کہ اب ہم نے ٣٥ سال کے اقتدار سے اور کچھ سیکھا ہے کہ نہیں .البتہ یہ ضرور سیکھ لیا ہے .کہ منی لانڈرنگ کس محفوظ طریقے سے کرنی ہے .اور اپنا نام  بچانے کی خاطر کس کس مہرے کو کہاں کہاں استمعال کرنا ہے .تا کہ جب کوئی حلف نامہ دینے کا وقت آے تو آسانی سے دیا بھی جا سکے اور دنیا کو چکمہ بھی دیا جا سکے .آجکل حکمران کے پاس چند مخصوس مہرے دستیاب ہیں .جن سے وہ حسب منشا کام لیتے جا رہے ہیں .آج کل ایک نام پھر مشھور زمانہ سننے میں آ رہا ہے .جو کمشن کے لئے ہر انٹرنیشنل معاہدے میں نظر آ رہا ہے .وہ ہے .سیف ور رحمان .جو قطر .دبئی.یا چین کے ساتھ کوئی  اگریمنٹ بھی ہو .وہ اس میں نظر آ رہے ہیں اور یہ کام وزیر اعظم نواز شریف کی خاص ہدایت پر ہو رہا ہے .کیونکہ بھروسے کا آدمی ہے .کیونکہ سیف ور رحمان کی وجہ سے اگر ملکی خزانے کو نقصان ہوتا ہے تو ہو جاۓ .مگر نواز شریف کو کوئی نقصان نہیں ہو گا .مثال کے طور پر قطر سے .ایل .پی .جی .گیس کا کاروبار ہی دیکھ لیں .ملک کو ہر روز کی بنیاد پر اگر کروڑوں کا بھی نقصان ہو .تو کوئی بات نہیں .مگر سودے اور کمشن کے مطابق سیف ور رحمان اور نواز شریف کو کوئی نقصان نہیں ہو گا .ہماری تو دعا ہے کہ اللہ اس پاکستان کو قوم کو چوروں لٹیروں حکمرانوں سے محفوظ رکھے.مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا .کیونکہ ملک میں نہ کوئی جمہوریت ہے .نہ نظام .نہ آئین.نہ قانون .نہ انصاف .نہ احتساب ہے .جس سے کسی حکمران سے پوچھا جا سکے کہ تم خلافت کر رہے ہو .بادشاہت یا پھر عامر ہو .یا ڈکٹیٹر ہو یا پھر کوئی فرعون ہو . کیونکہ قانون صرف غریب پر لاگو ہوتا ہے .اور اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں غریب وہ ہے .جس کے پاس رشوت دینے کے لئے کالا دھن نہیں ہے .یا جس کے پاس کوئی سفارش نہیں ہے .اس ملک کو اپنی اصل ڈگر پر چلانے کے لئے .نظام .انصاف .احتساب کے لئے .بیوروکریسی .سیاستدان  کو نکیل ڈالنے کے لئے  کسی بڑے آپریشن کی ضرورت ہے .کسی انقلاب کی ضرورت ہے .نام نہاد جمہوریت مزید ١٠٠ سال بھی اس ملک کے نظام کو ٹھیک نہیں کر سکتی .کیونکہ یہاں چور مچاۓ شور والا معاملہ بھی ہے .جس کو حکمران کنٹرول نہیں کر سکا .بلکہ الٹا بلیک میل ہوتا آ رہا ہے .اگر آپ مجھ سے متفق نہیں ہیں .تو آپ خود ہی بتا دیں.کہ ٦٥ سالوں سے کس حکمران کا احتساب ہوا ہے .کتنی لوٹی ہوئی دولت واپس خزانے میں آئی ہے .اور کتنی دوبئی.لندن .امریکا .سوئزرلینڈ .یورپ کے ممالک میں جا چکی ہے منی لانڈرنگ سے .یا منتقل ہو چکی ہے حکمران کی ملی بھگت سے .یہاں تو حکمران کو نہ شرم آتی ہے .نہ حیا .اور نہ غیرت ملی جاگتی ہے ..ڈوب مرنے کا مقام ہے ان لوگوں کے لئے جو دن رات حکمران کے قصیدے پڑنے اور لکھنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے ...شرم کرو .حیا کرو .ڈوب مرو ..دوغلی پالیسی والے منافقو .تم کو اگر موت یاد نہیں .تو تم مسلمان کہلوانے کے بھی حقدار نہیں ہو .بغیرتو...مجھ کو دھوکہ دو مگر خدا اور نبی کو دھوکہ مت دو ...میں تو ٦٥ سال سے تمہارے دھوکے میں ہوں .کیونکہ تمہاری جمہوریت کے پنجرے کے حصار میں ہوں ..آخر کب  تک .........جاوید اقبال چیمہ ..اٹلی والا ..٠٠٩٢٣٠٢٦٢٣٤٧٨٨ 

Friday, April 10, 2015

....................گوجرانوالہ کس کا گڑھ ہے ........................
..........یہ ایک ایسی بحث ہے جس میں کوئی بھی مناظرہ میں جیت نہیں سکتا .کیونکہ ہم سب شہر کی بربادی میں تھوڑے بھوت حصہ دار ہیں .مگر یہ بھی سچ ثابت ہو رہا ہے کہ جن کے ہاتھوں اس کو گندہ ہونے کا عزاز ملا تھا .ووہی اس کی صفائی میں کردار ادا کر رہے ہیں .باقی بھوت سارے سوالات ہیں گوجرانوالہ کے بارے میں . جن کے جوابات کتابوں کی شکل میں لکھے جا سکتے ہیں .اور یہ بھی سچ ہے کہ جوابات سننے کا شاید ہم میں اور ارباب اختیار میں حوصلہ بھی نہ ہو ..کس کس نے کیا کیا کردار ادا کیا .کس کس نے پلاٹ.زمینیں آلاٹ کیں .کس کس کو نوازہ گیا .کیسے کیسے بجلی .گیس .انکم ٹیکس .پراپرٹی ٹیکس .لیبر.صحت .چیمبر .کارپوریشن .مارکیٹ کمیٹی .سبزی منڈی.لاری اور ویگن کے اڈوں کو اور دوسرے اداروں کو تباہ و برباد کیا گیا .کس طرح چونگیوں .ٹول ٹیکس .اور دوسرے ٹھیکوں میں بندر بانٹ کی گئی..کون کون گوجرانوالہ کا پہلوان.استاد .استانی .سپاہی .پٹواری .ڈاکٹر .انجینئیر .وکیل .لڑکا .لڑکی .کھلاڑی ہیرو تھا .کون اپنے زور بازو پر اور کون کرپشن کے زور پر کہاں کہاں پنچا.کس کس نے دولت کمائی.کس نے نام کمایا .کس نے دنیا کس نے آخرت ..ٹیلنٹ بھوت ہے مگر ٹیلنٹ کو ناپنے والا آلہ نہیں تھا ..کس نے اداروں کی زمینیں فروخت کیں کس نے چھپڑ تک فروخت کر دئے..گوجرانوالہ کا سیاستدان عام آدمی کی کال اٹینڈ کرنا اپنی توہین سمجھتا ہے .اور کون مقبول ہوا ..یہ مزدور .محنت کشوں .پہلوانوں .کوچوانوں .ریھڑی بانوں.اور ٹیلنٹ رکھنے والوں کا شہر تھا .اس شہر میں برادریوں نے بڑا نام بھی کمایا مگر بدنام بھی ہووے .حتہ کہ معزز پیشہ صحافت بھی چند گندی مچھلیوں کی وجہ سے بدنام ہوا ..اور آج تو گوجرانوالہ کی صحافت ایک پیشہ نہیں مکمل کاروبار ہے .جتنی جس میں سکت ہے جوانی ہے وہ اتنا ہی کما رہا ہے .جو اس دوڑ میں پیچھے ہے وہ اپنی عمر اور اپنے ضمیر کی وجہ سے پیچھے ہے ..کیونکہ یہاں صحیح رپورٹنگ اور ایماندار لکھاری ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ..باقی جس طرح بزرگ کہتے ہیں کہ اگر کسی ملک کو پرکھنا ہو تو اس کی عدالت انصاف کو دیکھ لو .اگر کسی گھر کو دیکھنا ہو تو اس کے غسل خانوں کو دیکھ لو .اسی طرح میں پاگل کہتا ہوں کہ گوجرانوالہ کی صحافت کو دیکھنا ہے تو پریس کلب کو دیکھ لو .سڑکوں پر گزرنے والی موٹر سائکل اور کاروں کے اوپر لکھی ہوئی پریس کی نمبر پلیٹوں کو دیکھ لو .پریس کے کارڈ کی تعداد نوٹ کر لو .تعلقات عامہ کے دفتر سے لسٹ حاصل کر لو .پریس کلب کے کھلاڑیوں کا کردار موجودہ سابقہ اور گروپ بندوں کو دیکھ لو .صحافی کی سیاسی وابستگیوں کو دیکھ لو .قصیدہ لکھنے والے کالم نگاروں . اداریوں کو دیکھ لو .آپ کو اندازہ ہو جاۓ گا کہ گوجرانوالہ کس کا گڑھ ہے ..باقی آپ کسی بھی برادری یا سیاسی پارٹی کو یہ سرٹیفکیٹ نہیں دے سکتے کہ گوجرانوالہ اس کا گڑھ ہے ..صرف جیتنے کی حد تک آپ یہ کہ سکتے ہیں کہ نون لیگ کے مقدر اچھے تھے کہ تمام برادریوں حتہ کہ مزھبھی جماعتوں میں بھی نا اتفاقی تھی .سیاسی پارٹیوں کے اندر نا اتفاقی گروپ تھے .جس کا فایدہ نون لیگ کو ہوا .حتہ کہ تحریک انصاف کے اندر دھڑے تھے اور ابھی تک قایم ہیں ..اس لئے یہ کہ دینا کہ گوجرانوالہ فلاں گروپ کا گڑھ ہے یہ غلط ہے..کیونکہ سچ بھوت کڑھوا ہوتا .یہ بھی سچ ہے کہ بٹ برادری نے گوجرانوالہ میں سب سے زیادہ مفادات حاصل کئے.یہ بھی سچ ہے کہ آج بھی انتظامیہ بٹ برادران کے ویگن کے اڈوں کو ہاتھ نہیں لگا سکتی .انتظامیہ کے ہمیشہ پر جلتے رہے .مسلم لیگ کو ہمیشہ فایدہ اوپر کی طاقتوں نے پنچایا .مجھے وہ واقعہ بھی یاد ہے کہ جب ڈپٹی کمشنر اختر علی مونگا نے ٥٠ لاکھ مسلم لیگ سے لیا تھا الیکشن جتانے کے لئے .یہ مزیدار سٹوری ہے گوجرانوالہ کی .پھر کبھی مکمل سناؤں گا .اس چکی میں بھی پسا تھا .یہ وزیر اعلی غلام حیدر وائیں کا زمانہ عبرت تھا ..پی.پی.پی.کو ہر دور میں گوجرانوالہ میں نقصان پنچایا گیا .جبکہ گوجرانوالہ کی تاریخ میں سب سے ایماندار سیاستدان حاجی امان اللہ تھے .یہ کریڈٹ .پی.پی.پی.کو جاتا ہے .یہ ریکارڈ کوئی نہیں توڑ سکتا .گوجرانوالہ میں اگر بٹ برادری کا مقابلہ کیا ہے تو صرف ارائیں برادری نے .مگر خالد ہمایوں کی ناگہانی موت کے بعد آرائیں برادری بھی پارہ پارہ ہو چکی ہے .نا اتفاقی کی وجہ سے اب بٹ چھا چکے  ہیں .منہ سے کہنا آسان ہے .مگر یہ حقیقت ہے کہ گوجرانوالہ میں بٹ      ہر فن مولا ہیں .سیاہ و سفید کے مالک ہیں .نان چنے کی  ریڑھی سے لے کر بڑی سے بڑی مافیا ان کے قبضے میں ہے .مگر بٹ کا لفظ کچھ حد تک نفرت کا سیمپل بھی بنتا جا رہا ہے.مگر آرائیں برادری بھی کوئی پارساؤں کی برادری نہیں ہے .اس میں بھی کچھ لینڈ مافیا کچھ بد معاشی کی وجہ سے مشھور ہیں .یہاں الیکشن میں شریف آدمی کے جیتنے کی کافی چانس موجود ہیں .اگر شریف ایماندار گروپوں میں اتحاد ہو جاۓ تو .کیونکہ لوگ بد معاشی کی سیاست سے تنگ آ چکے ہیں . .اس لئے گوجرانوالہ کے لئے ابھی امتحان اور بھی ہیں ...ہاں البتہ یہ کہا جا سکتا ہے ....کہ .....پڑھے لکھوں کا شہر ہونے کے باوجود احساس زیاں اور شعور کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے ...اپنی کتاب .انقلاب جاوید .کے چند مزید الفاظ آپ کی نظر .......کچھ یوں ..کہ ..............................................
................بے حس ہو گئی قوم احساس زیاں جاتا رہا
...............نہ رہا جوش ولولہ  وہ  نعرہ نہاں جاتا رہا
..............بحث و مباحثہ . مذاکرہ و تکرار ہے  جاری
............نہیں بدلے گا نظام وہ انقلاب کارواں جاتا رہا
.............ہے شعلہ.ہے شبنم . .ہے مہتاب جبیں
...........خودی کا باغباں وہ جوش ناتواں جاتا رہا
..........تیرے مشاعروں سے کسے ہے دلچسپی جاوید
..........خدی بک گئی شاعر غربت کا جہاں جاتا رہا
.................جاوید اقبال چیمہ .....٠٠٩٢٣٠٢٦٢٣٤٧٨٨ 

Wednesday, April 8, 2015

......پرائیویٹ سکولز اور ظلم کی انتہا ...........
.....انقلاب زمانہ دیکھئے کہ پاکستانی حکمران اس ملک کو ایک اسلامی فلاحی ریاست کہتا ہے .مہذب قوم .مہذب معاشرہ کہتا ہے .ایک ایسا پاکستان جس میں حکمران نے قوم کو ٦٥ سالوں سے بنیادی سہولتوں سے محروم کر کے رکھا ہوا .نہ تعلیم نہ صحت نہ روزگار .نہ کوئی نظام تعلیم اور ہر طرف حکمران کی پبلیسٹی کا انقلاب ہی انقلاب ..دعوے ہی دعوے .وعدے ہی وعدے.جھوٹ ہی جھوٹ .اور کھوکھلے نعرے.اور سب سے بڑی بات یہ کہ حکمران سب کچھ جانتا ہے .کہ گورنمنٹ کے سکولوں میں گدھے باندھ کر وڈیرے نے قبضہ جما رکھا ہے .اور جو کھلتے ہیں .ان میں نہ پانی .نہ بجلی . .نہ استاد ..مگر تنخواہ وصول کی جاتی ہے .اب کوئی بات عجوبہ نہیں نارمل سمجھی جاتی ہے .ہم ایسے سکولوں کو بھی جانتے ہیں .پنجاب میں .خاص کر گوجرانوالہ میں .جہاں ریگولر استانی سکول جانا پسند نہیں کرتی .تو وہ چند ہزار دے کر کسی لڑکی کو استانی کا فریضہ سونپ کر گھر بیٹھے تنخواہ لیتی ہے .اور تو اور محکمہ تعلیم کے ملازم یہ سب کچھ جانتے ہیں .کیا محکمہ تعلیم کے علم میں نہیں کہ پرائیویٹ سکولوں میں کونسا نظام تعلیم رایج ہے .کتنی کتنی فیسیں وہ بچوں سے وصول کر رہے ہیں .اور  معاشرے کو تباہ و برباد کرنے میں وہ کیا کردار ادا کر رہے ہیں .چھٹیوں کے مہینوں کی بھی فیس زبردستی وصول کی جاتی ہے .آے دن بے سود فنکشن .فضول .واہیات .پروگرام کے لئے بھی  زبردستی چندے وصول کئے جاتے ہیں .کیا یہ ظلم نہیں .ذرا غور کریں کہ چالیس ہزار تنخواہ لینے والا اپنے دو بچوں کو تعلیم دلواۓ یا گھر کا خرچہ چلاۓ.کیونکہ دو بچوں کی تو فیس اور خرچہ ہی چالیس ہزار ہے .دنیا میں سب سے مہنگی تعلیم کی فیکٹری اور کاروبار پاکستان میں ہے .اور ایک ایسا کاروبار جس میں نفح ہی نفح ..پرافٹ کی شرح  ہر کاروبار سے زیادہ اور ٹیکس نہ ہونے کے برابر .پرایویٹ سکولز کی بھر مار اور اخراجات اور لوٹ مار کی انتہا .مگر اس کے باوجود کوئی پوچھنے والا نہیں .جو فیس غلطی سے   سکول کے اکاونٹ میں جمع ہو جاۓ .وہ واپس نہیں ملتی .سیکورٹی کے نام پر بھی ظلم اور بدمعاشی .کریکٹر اور کردار کے لحاظ سے بھی بچہ زیرو .پرنسپل اپنے آپ کو خدا سمجھتے ہیں .اور پرنسپل فیمیل تو اور بھی فرعون سے اپنے آپ کو کم نہیں سمجھتی .سواۓ لباس .میک اپ اور فیشن اور رعب.دب دبے کے علاوہ تو ہم کو کوئی خوبی دیکھنے میں نہیں ملتی .پرنسپل اور مالکان کے شہانہ ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر تو ہمارا بھی جی للچاتا ہے .کہ سب کام کاروبار چھوڑ کر بس سکول کا کاروبار ہی کر لیا جاۓ .کہ جہاں نہ جعلی ڈگری کی فکر نہ درد جہاں .شتر بے مہار .نہ کوئی پوچھنے والا نہ حساب کتاب چیک کرنے والا .تعلق ایسے کہ با کمال سروس لاجواب سفارش کے فول پروف انتظامات .کیونکہ بڑے بڑے افسروں کے بچے .اور سکول کے مالک یا پرنسپل کی تو لاٹری ہی نکل آئی .کہ اگر ایک بھی افسر کے بچے کو ابلایج   یا  اکموڈیٹ کر دیا .تو وارے ہی نیارے .پھر جو مرضی کرو .جتنا مرضی بچوں کو سیر سپاٹے فنکشن اور کاپیوں کتابوں کے نام سے لوٹو .بلکہ اب تو یہ کاروبار یہاں تک پنچ چکا ہے .کہ ایک سکول کی کتاب خریدنے   کے لئے صرف سارے شہر میں ایک دوکان سے رجوح کرنا پڑے گا .اور وہاں منہ مانگی رقم ادا کرنی ہو گی .١٠٠ روپے کی کتاب ٦٠٠ کے حساب سے خرید کرنا ہو گی .کیونکہ اس برانڈ کی کتاب  فروخت کرنے کے لئے خاص اپنے دوکاندار کو لوٹنے کا اختیار دیا گیا ہے .غور کریں خاص سکول خاص کتاب خاص دوکان کی اہمیت .خاص یونیفارم خاص جگہ ..یہ سب کاروبار پرایویٹ سکولز .تعلیم کے ساتھ نتھی ہیں .آپ نے صرف فیس ہی ادا نہیں کرنی ہزاروں میں .بلکہ کھانے.پینے .یونیفارم .کتابیں .کاپیاں اور ٹرانسپورٹ تک .ٹویشن تک .اور بھوت سے لوازمات تک آپ سکولز کے مرہون منت ہیں .اور استادوں کو جو تنخواہ دی جاتی ہے .اس میں بھی لوٹ مار ..دن دہاڑے.لوٹنے کا ایک ایسا کاروبار جس میں چور ڈاکو بھی شرمندہ ہیں .کیونکہ ڈاکوووں کو تو پھر بھی پولیس کا خوف ہوتا ہے .مگر سکولز کی انتظامیہ بغیر کسی ڈر اور خوف کے ہم کو لوٹتی ہے .جن کو کسی محکمے کا کوئی ڈر خوف نہیں ہے .جب سے یہ کاروبار عروج کو پنچا ہے .ٹریفک کا نظام دھرم بھرم ہو چکا ہے ..ہر گھر .فیکٹری .پلازہ .سکول بننے کا خواہشمند ہے .کیونکہ سکول کی جگہ .کمروں.عمارت.کے لئے کوئی ضابطہ اخلاق یا .این .و .سی .کی ضرورت نہیں ہے .بس صبح اٹھو .کوئی گھر دیکھو .دوکان دیکھو اور پھر اس پر کسی ماڈل گرل جیسا  خوبصرت بورڈ لگا دو .اور پھر کوئی بنگلہ ہے .تو فیس ٢٠٠٠٠ روپے .اگر گھر ہے تو ١٠٠٠٠ روپے اور اگر دوکان وغیرہ ہے تو ٥٠٠٠ روپے .فی بچہ ..اور بس کام سٹارٹ .اور اسی حساب سے تعلیم کے معیار کی استانی اور استاد .اور اگر آپ کو استاد .استانی .تلاش کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے .تو محکمہ تعلیم کے کلرک کو اپنی مجبوری بتا دو .وہ اس کا حل نکال کر آپ کو دے دے گا .کوئی فکر والی بات نہیں ہے ...کسی سکول کے خلاف آپ کوئی کاروائی بھی نہیں کر سکتے .کیونکہ ایک تو کوئی نظام نہیں ہے .دوسرے پنجاب حکومت کے پاس کوئی وزیر نہیں ہے .تیسرے پنجاب حکومت کے پاس دانش سکول کے علاوہ کوئی وقت نہیں .چوتھے نمبر پر اہم پہلو یہ ہے کہ سکول مالکان کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں کہ آپ کو بتا نہیں سکتے .پچھلے ایک سال سے ہم گوجرانوالہ کے ایک .ایل .جی .ایس...لاہور گریمر سکول .سے اپنے ٧٠٠٠٠٠ روپے واپس لینے کے لئے ٧٠٠٠٠ چکر لگا چکے ہیں .اور جو کچھ ہم نے دیکھا اور جو دیکھ رہے ہیں .وہ کہانی ہم آپ کو اگلی قسط میں پروف کے ساتھ دکھانے والے ہیں .انتظار کریں .یہ سکول مشھور و معروف سیاسی شخصیت عابدہ حسین کا ہے .یہ گوجرانوالہ کے مہنگے سکولوں میں اپنا مقام رکھتا ہے .اور یہ سیالکوٹ بائی پاس پر انٹر بورڈ کی عمارت کے سامنے ہے .اور اس کی پرنسپل بھی ایک فرعون سے کم نہیں ہے .اس کے بارے میں بعد میں بریکنگ نیوز دیں گے .پہلے حکمران بالا سے گزارش ہے .کہ آپ سکولز کے ڈاکووں کو کوئی فیس کے معاملہ پر ضابطہ اخلاق کا پابند بنایں.اگر آپ کوئی نظام تعلیم یکساں نہیں دے سکتے .تو نہ سہی .مگر مہنگائی کے اس دور میں عوام کو فیسوں پر کنٹرول کر کے کوئی رلیف دیا جاۓ .ہر شہر کی انتظامیہ یہ تو کر سکتی ہے نہ ..ہر کام خادم اعلی پر نہ چھوڑا جاۓ .کچھ تو ادارے بھی اپنی اپنی ذمہ داری کا مظاھرہ کریں .تا کہ سیاستدانوں کو عوام کے غیظ و غضب کا سامنا کم کرنا پڑے..آخر آپ بھی  تنخواہ لیتے ہیں .کچھ تو حق نمک آپ بھی ادا کریں پلیز .....کچھ تو اپنی اداؤں پر غور کرو .ہم کہیں گے تو برا مان جاؤ گے .یہ تو میں سمجھتا ہوں .کہ اس ملک خدا داد میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے .اس ملک کے نظام کو تبدیل کرنے کے لئے .امپلمنٹیشن کے لئے .کسی بڑے آپریشن بڑے انقلاب کی ضرورت ہے .اب یہ مرض کافی حد تک کینسر کی شکل اختیار کر چکا ہے .مگر پھر بھی علاج تو کسی نہ کسی نے کرنا ہی ہے .تو پھر کیوں نہ سوچ بچار کی جاۓ .کوشش کی جاۓ .شاید خدا ہماری مدد کر ہی دے .اس  خلوص. دعا اور درخواست کے ساتھ حکمران سے اجازت چاہتا ہوں .دوبارہ ملنے تک .اگر زندگی رہی تو ...ایکشن کا طلبگار .ہم نہ ہوں گے .تو کوئی اور ہو گا .تجھ سے پوچھنے والا ...جاوید اقبال چیمہ ..٠٠٩٢٣٠٢٦٢٣٤٧٨٨ 

Monday, April 6, 2015

.........شرم کرو .حیا کرو .ڈوب مرو ..........
....... انقلاب زمانہ دیکھئے کہ بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے .نہیں یہ بھی دیکھئے کہ بدلتا ہے سیاستدان نقاب کیسے کیسے .شرم کرو .حیا کرو .ڈوب مرو .یہ الفاظوں کے موتی .مقدس پارلیمانی زبان .مقدس ایوان میں میرے ٹھنڈے ٹھنڈے دھیمے دھیمے لہجے میں بولنے والے میرے پیارے سیاستدان نے آج جزباتی انداز میں ادا کئے.اب میرا بھی حق بنتا ہے کہ میں بھی اسی مقدس زبان میں بات کرو .خواجہ آصف صاحب آپ نے ڈنڈی ماری .قوم کو گمراہ کیا .سو میں سے ایک بات سہی کہی .جو باقی ٩٩ باتیں رہ گیں تھیں .وہ میں پوری کر دیتا ہوں .اگر طبیعت پر گراں نہ گزریں تو .اور نہ مجھ پر چھاپ کسی سیاسی پارٹی کی لگانا .کیونکہ سچ کڑوا ہوتا ہے .آپ نے سچ کہا.مگر باقی سچ یہ ہے اور آپ کی باقی تقریر یہ ہے خواجہ صاحب .کہ شرم کرو .حیا کرو .ڈوب مرو .پارلیمنٹ والو اور سب سیاستدانوں کہ تم کالا باغ پر مفاہمت نہ کر سکے .تم زرداری کو بھاٹی گیٹ پر گھسیٹنے کی بات کرتے تھے .شرم کرو .حیا کرو .تم کہتے تھے کہ ہم بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ .اغوا .نہیں کرتے .بوری بند لاشوں کا کاروبار نہیں کرتے .مگر تمہارے گھر سے جرم کرنے والے پکڑے گہے.شرم کرو .حیا کرو .تم کہتے تھے کہ ہم ٦ ماہ میں بجلی .گیس .بیروزگاری کا خاتمہ کر دیں گے .شرم کرو .حیا کرو .تم نے قوم کے ساتھ کرپشن پر جھوٹ بولا .معاہدوں پر .کمیشن پر .جوڈیشنل کمشن پر .نندی پر پراجیکٹ پر .تندور روٹی .لیپ ٹاپ .دانش سکول پر .لا اینڈ آرڈر .کی صورت حال پر قوم سے جھوٹ بولا .سیاستدانوں شرم کرو .حیا کرو .قوم کے ساتھ اتنی دوغلی پالیسی پر جھوٹ مت بولو .تھر پر .تھر کے کوئلے پر .ارسلان افتخار کیس پر .ریکوڈک پر .بلدیاتی نظام پر .انصاف اور احتساب پر جھوٹ بولا .شرم کرو .حیا کرو سیاستدانوں .کہ الیکشن جیلی کروانے پر .ڈبوں میں ووٹوں کی پرچیوں کی جگہ ردی ڈالنے پر شرم کرو .حیا کرو .قوم کو دھوکہ دینے پر فراڈ کرنے پر .ہر روز جھوٹ بولنے پر .چینل پر فوٹو تمہاری کی مشہوری اور پیسہ عوام .شرم کرو .حیا کرو سیاستدانوں .جب تم اپوزیشن میں تھے تو تمہارا چہرہ کچھ اور تھا .جب اقتدار میں آے ہو تو تمہارا چہرہ کچھ اور ہے .کبھی فوج کو گالیاں دیتے ہو .کبھی فوج کے تلوے چاٹتے ہو .کبھی فوج کے خلاف بولنے والے چینل کو .کبھی میر شکیل کو .کبھی حسین حقانی .کبھی افتخار چودھری .کبھی ڈاکٹر شکیل کو تحفظ دیتے ہو .کبھی ریمنڈ ڈیوس کے لئے رات کے اندھیرے میں عدالتیں لگاتے ہو .شرم کرو .حیا کرو .جھوٹے بےغیرت سیاستدانوں .اوپر اوپر سے کشمیر کا نام اور اندر اندر سے انڈیا سے ذاتی مراسم .اور آلو.پیاز .ٹماٹر کا کاروبار .نیٹو کی سپلائی کے لئے اپنی سڑکیں تباہ و برباد .نیٹو کا اسلح خرد برد .کوئی پوچھنے والا نہیں .افغان مہاجرین کی واپسی کے لئے ٣٥ سال اور کاروباری دوکان .شرم کرو .حیا کرو .تم نے کتنے سال زایاح کئے قوم کے .دہشت گردی کی جنگ کو ختم کرنے کے لئے .اب بھی فیصلہ تمہارا نہیں یہ ایکشن آرمی کے جنرل راحیل شریف کا ہے .شرم کرو .حیا کرو سیاستدانوں.کراچی میں کئی بار آپریشن بند کیا گیا .مفاہمت کے نام پر .شرم کرو سیاستدانوں تم خود متحدہ کے ڈر اور خوف میں مبتلا ہو .ایک شخص لندن میں بیٹھ کر تمام چینل کو چار چار گھنٹے یرغمال بناۓ رکھتا ہے .تم پارلیمنٹ والے سب چور مل کر بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے .شرم کرو .حیا کرو .سیاستدانوں .تم سے کراچی کی مافیا کنٹرول نہیں ہو رہی .تم ملک کو کیا کنٹرول کرو گے .خارجہ پالیسی کیا  بناؤ گے .تم تو چمچوں سے ملکر حکومت چلا رہے ہو .تم ملک کی سالمیت کو عزیز نہیں سمجھتے تم اقتدار کو عزیز سمجھتے ہو .تمہارا سارا وقت اور زور اقتدار کو بچانا .اقتدار کو طول دینا اور کرپشن کرنے میں صرف ہوتا ہے .شرم کرو .حیا کرو ..تم نے کتنے گھر اجاڑ دے .کتنی ماؤں کے چراغ گل کروا دے .مگر تم اس قوم کو انصاف نہیں دے سکے .اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش نہیں کر سکے .تم خود بجلی .گیس .چوری کرتے ہو .بدمعاشی کرتے ہو .ملک کو فلاحی .اسلامی ریاست بنانے میں تم ناکام ہو چکے ہو .شرم کرو .حیا کرو سیاستدانوں .تم اسلامآباد اور اس کی سڑکیں دیکھتے ہو .کبھی غریبوں کی جگہوں .جھگیوں .کو آ کر دیکھو .جو ہر بنیادی ضرورت کو ترس رہے ہیں .تم وی .آئی .پی .کلچر  والوں کو غریب کی جھونپڑی سے کیا واسطہ .تم سب کو تو بلو پاسپورٹ کی ضرورت ہے .تمہارے بچے امریکا میں .برطانیہ میں .سکول جایں.اور کاروبار کریں .تمہارے فلیٹ اور منی لانڈرنگ والی دولت باہر اور تم ہم پر حکمرانی کرنے کے لئے یہاں ..شرم کر .حیا کر .میرے سیاستدان ..تم ہر روز تارکین وطن پر تقریریں کر کر کے جھوٹ بولتے ہو .کہ ہم تارکین وطن کو تحفظ فراھم کرتے ہیں .تم جھوٹ بولتے ہو .جھوٹے سمینار کرتے ہو .جھوٹے اور بےغیرت لوگوں کو .چمچوں کو نوازتے ہو .شرم کر .حیا کر .میرے جھوٹے سیاستدان .میں بھی تارکین وطن سے تعلق رکھتا ہوں .میں نے اٹلی میں بیٹھ کر ١٢ کتابیں لکھی ہیں .تم نے مجھ کو کیا دیا .اس لئے کہ میں قصیدہ خوانی نہیں کرتا .شرم کر سیاستدان .میری جیب میں تین سال سے تین .ایف .آئی .آر .ہیں .کہیں سے انصاف نہیں ملا .اسی لئے خواجہ آصف صاحب .تم کو سلام پیش کرتا ہوں کہ تم نے پارلیمنٹ میں سچ بولا .اب بہتر ہے تم بھی شرم کرو .حیا کرو .اور چلی پانی لے کرو .ڈوب مرو .تم خود ہی اپنی اداؤں پے ذرا غور کرو .ہم کہیں گے تو برا مان جاؤ گے ... نہ بدلے جس سے نظام وہ انقلاب افکار نہیں ہوتا ... به جاۓ جو قوم کی خاطر وہ لہو بیکار نہیں ہوتا .........اک آواز ہے جو تیرے درو دیوار تک پنچے ........اک سجدہ ہے جو تیرے معیار تک پنچے .......جاوید اقبال چیمہ .......٠٠٩٢٣٠٢٦٢٣٤٧٨٨ 

Saturday, April 4, 2015

....گوجرانوالہ سہولت سنٹر اور خادم اعلی.........
....انقلاب زمانہ دیکھئے کہ مسلمان حکمران  کی تاریخ  اپنے آپ کو کئی بار دوہرا چکی ہے .اندلس ہو .روم ہو .مراکش ہو .پانی پت ہو .سلطنت اکبر ہو .شیر شاہ سوری ہو .سلطنت مغلیہ ہو .بادشاہت ہو .یا  خلافت ہو .ٹیپو سلطان ہو .خالد بن ولید ہو .عمر فاروق  ہو .یا چنگیز خان ہو .سلطنت بابر ہو .یا ہارون رشید ہو .انڈو پاک ہو .یا ہمارا قاعد اعظم ہو .١٩٤٧ ہو یا ٢٠١٥ ہو .بات آخر کار ٹھہرے گی .عمل پر .کردار پر .عمارتیں بنانا .سڑکیں بنانا .قانون بنانا .آئین بنانا .کرسیاں میز کمپیوٹر سجانا اچھی بات ہے .مگر اس سے اچھی بات امپلیمنٹیشن ہے .جو اس ملک میں صرف وی .آئی .پی .کلچر میں اور نظریہ ضرورت میں ہی نظر آتی ہے .اور غریب کو شکنجے میں کسنے کے لئے نظر آتی ہے .جس طرح کسی نے کیا خوب کہا تھا .مسجد تو بنا دی شب بھر میں .دل والوں نے ..من اپنا پرانا پاپی تھا .برسوں سے نمازی بن نہ سکا ..تو خادم اعلی کا کیا قصور ہے .ڈی .سی .او ..کمشنر .یا دوسرے ارباب اختیار کا کیا قصور ہے .کس نے ذمہ داری نبھائی.کون کتنے پانی میں ہے .آپ ذرا ایمانداری سے وہاں کا چکر لگا لیں .آپ کی سمجھ میں ہر چیز آ جاۓ گی .ہم نے ہمارے اخبار نے وہاں سے کیا کچھ حاصل کیا .بیان نہیں کر سکتا .ابھی صرف انتظامیہ سے تعاون کرتے ہووے اصلاح کی درخوست کروں گا .بعد میں تفصیل آپ کے گوش گزار کر دی جاۓ گی .بلڈنگ خوبصورت .عملہ کا رویہ ناقبل برداشت .کلرک کم چپراسی زیادہ . .کام کرنے کا انداز جیسے ہمارے اوپر کوئی احسان کیا جا رہا ہو ..سفارش اور رشوت کا ووہی پرانا طریقہ .پھیرے پر پھیرے .پٹواری کلچر پہلے سے بھی بد تر .وقت پر  آنا وہاں کا عملہ اپنی توہین سمجھتا ہے .پٹواری کئی کلومیٹر دور .اگر آپ نے پٹواری کو تلاش نہیں کیا .یا رابطہ نہیں ہوا .تو پھر آپ کو دو تین بار فیس دینا پڑے گی .بار بار  فیس دینا ہو گی .بار بار چکر لگانا ہوں گے .جب تک آپ پٹواری  سے مک مکا نہیں کر لیتے .آپ کی فرد آپ کے ہاتھ میں نہیں آ سکتی .اگر جگہ سفیدہ ہے تو تعمیر لکھا ہو گا .اگر رہایشی ہے تو کمرشل لکھا ہو گا .غرض کہ فرد آپ کو صحیح اس وقت تک نہیں مل سکتی .جب تک آپ پٹواری سے اپنا رشتہ ناطہ جوڑ نہیں لیتے .یہ کمپیوٹر سسٹم اور اس نظام کا ایک عدنا سا ذکر ہے .احوال ہے .جو نظام خادم اعلی نے کروڑوں خرچ کر کے اس قوم کو دیا ہے .کس نے کس طرح امپلمنٹیشن کرنا تھی اور کروانا تھی .سب گوجرانوالہ کے پٹواریوں کو اور متعلقہ عملہ کو اسی جگہ اسی بلڈنگ میں بھی بٹھایا جا سکتا ہے .ایک ہی چھت تلے .ایک ہی کھڑکی سے یورپ کی طرح مقصد  حاصل کیا جا سکتا ہے .شرط یہ ہے .مرضی کی .اہلیت کی .نگرانی کی .کچھ کرنے کی لگن .ذمہ دار کا تعین  .نظام کی امپلمنٹیشن نہ ہونے کی وجہ یہ سہولت سنٹر ایک عذاب اور مذاق بن چکا ہے .لوگ کہتے ہیں اس سے بہتر تھا کہ یہ تحفہ پنجاب کو دیا ہی نہ جاتا اگر ارباب اختیار خود اس کھلونے کو چلانا ہی نہیں جانتے  تھے .تو نیچے والا طبقہ تو اس سے کھیلے گا سو وہ خوشی خوشی سے کھیل رہا ہے اور اوپر والوں کو بھی  خوش کر رہا ہے .اور ہم سہولت سنٹر اور خادم اعلی کے شادیانے بجا رہے ہیں .واہ کیا بات ہے میری زمین کمپیوٹر رائز ہو چکی ہے ...جاوید اقبال چیمہ ..٠٠٩٢٣٠٢٦٢٣٤٧٨٨ 

Thursday, April 2, 2015

......میری قوم کی بے حسی دیکھئے .............
......انقلاب زمانہ دیکھئے کہ میں حکمرانوں کے خلاف  لکھنے والا اور اپنی غریب عوام کو ڈیفنڈ کرنے والا آج خود ہی اپنی قوم کے بھی خلاف لکھنے پر مجبور ہوں .آخر کیوں کب تک میں کبوتر کی طرح بلی سے بچنے کے لئے آنکھیں بند کر کے بیٹھا رہوں گا .آخر کیوں میں پھڑ پھرانے کی کوشش نہیں کرتا .جس ڈر.خوف .میں مبتلا ہوں .اس کی یقینن کافی وجوہات ہیں .ایک تو میں بزدل ہوں .حکمران سے انصاف نہ ملنے پر نا امید ہوں .ایمان کی کمزوری بھی ہو سکتی ہے .پیٹ کی بھی مجبوری ہو سکتی ہے .مزید تمہید میں نہیں جانا چاہتا .بات کر رہا ہوں .١٣ سال کا بچہ زین .ایک وہہات.خود سر وڈیرے کے ہاتھوں لاہور میں قتل ہوتا ہے .تو ہم چینل پر وڈیرے کی کہانیاں سناتے ہیں .افسوس تو مجھے اس بات کا ہے .کہ لاہور ہو یا کراچی .بھتہ خور ہو .یا ٹارگٹ کلر.دہشت گرد ہو .یا آوارہ .نشہ کرنے والا یا نشہ بیچنے والا .ہم اس کی طرف بر وقت  اشارہ کیوں نہیں کرتے .کیوں اپنا فرض نہیں نبھاتے .کیوں پولیس کو اطلاح نہیں دیتے .یا خود کیوں نہیں سمجھاتے.قانون ہاتھ  میں لینے والوں کے خلاف آواز کیوں نہیں بلند کرتے .دو ہی وجوہات ہیں .یا معاشرہ تباہ ہو چکا ہے یا من ہیسل قوم ہم قوم ہی نہیں رہے ہم ہجوم ہیں یا بھیڑ بکریوں کا اک ریوڑ ہیں .جن کو میرا ظالم حکمران ہانک رہا ہے .ساری برائیوں کی جڑھ میرا حکمران ہے .کیونکہ اگر مجھے ذرا سا بھی حکمران کی طرف سے انصاف ملنے کی امید ہو تو میں سب سے پہلے قانون کے رکھوالوں کو اطلاح دوں گا .رابطہ کروں گا اور ایکشن ہوتا دیکھوں گا .قانون کے رکھوالوں پر خوش ہوں گا اور آئندہ بھی ان سے تعاون کروں گا .یورپ میں یہی ہوتا ہے .جب کوئی لڑکا .لڑکی .عورت .مرد .جوان .بھوڑا.کہیں بھی کوئی غلط کام ہوتا دیکھتے ہیں .مشکوک آدمی دیکھتے ہیں .وہ اپنی بالکونی میں کھڑے کھڑے پولیس کو اطلاح دیتے ہیں .اور اسی وقت وہ عمل ہوتا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں .اور اگر ان کے کہنے پر ایکشن نہیں ہوتا .تو سمجھ لو کہ جس ادارے کو فون کیا گیا تھا اس کی شامت آ گئی.اس لئے وہاں سب برائیوں کے باوجود کوئی کن ٹوٹا.بدمعاش .جاگیردار .وڈیرہ .کانجو .زرداری .لاشاری .لغاری .چیمہ .چٹھہ.نہیں ہوتا .اسلح کی نمایش تو کجا .اسلح غیر قانونی رکھ ہی نہیں سکتا .پاکستان کا باوا آدم ہی نرالا ہے .یہاں اپنے محلے میں اگر میں کسی کام کرنے والی عورت کو غلط جگہ کوڑہ وغیرہ پھینکنے سے منع کروں تو اس کے مالکان بھی برا مان جاتے ہیں .حالانکہ میں بھی کیولری گراونڈ لاہور کی طرح ایک پوش علاقے میں رہتا ہوں .تو یہ حالت ہے اس قوم کی .کہ محلے والے سب کانجو صاحب وڈیرے کی غلط حرکتوں سے واقف تھے .مگر کسی نے یہ جرات نہ کی .کہ قانون والوں کو حقیقت سے آگاہ کیا جاۓ .کیونکہ کسی کو خادم اعلی اور اس کی پولیس پر عتبار ہی نہیں .اور عتبار ہو بھی کیسے .جب کہ میں خود تین ایف.آئی .آر .اپنی جیب میں تین سال سے لئے پھر رہا ہوں .اور گوجرانوالہ کے ہر پولیس افسر سے مل چکا ہوں .اور نتیجہ صفر ہے .تو پھر میرے اندر عتماد کہاں سے آے گا .کاش محلے .یا مسجد کی کوئی پنچایت ہوتی .کاش بلدیاتی سطح پر کوئی پنچایت کو اختیار ہوتا .کاش نچلی سطح پر کوئی خود مختار ادارہ ہوتا .تو محلے میں کوئی بدمعاش پیدا ہی نہ ہوتا .کاش خادم اعلی  کبھی مجھ جیسے شخص سے ہی نظام مانگ لیتے .میں ان کو ایک بہترین بلدیاتی نظام دے دیتا .کاش .کاش ..اسی لئے کہتا ہوں کہ اس ملک کو ایک انقلاب کی ضرورت ہے .جو ایک دفعہ یہ گند صاف کرے .نظام کو تبدیل کرے .انصاف اور احتساب کا عمل شورع ہو ..ورنہ .حکمران سے نا امید ہی لکھوں گا اور قوم کو ہجوم ہی لکھوں گا .کوشش جاری ہے .اسی لئے میں نے جب بارویں کتاب .انقلاب کاروان.میں حکمران سے نا امید لکھا ..وہاں یہ بھی لکھا ...سنا ہے نام چلو انقلاب کا دیا جلا کے دیکھتے ہیں ....چلو اس منچلے ہجوم کو بھی قوم بنا کے دیکھتے ہے .......خدا اور نبی سے نا امید نہیں جاوید ...حکمران سے نا امید لکھوں یا بد گمان لکھوں ...تو ہی بتا کیا لکھوں ..سوچتا ہوں کیا لکھوں ....جاوید اقبال چیمہ ..اٹلی والا ..٠٠٩٢٣٠٢٦٢٣٤٧٨٨