Mission


Inqelaab E Zamana

About Me

My photo
I am a simple human being, down to earth, hunger, criminal justice and anti human activities bugs me. I hate nothing but discrimination on bases of color, sex and nationality on earth as I believe We all are common humans.

Wednesday, September 30, 2015

======قوم کو بھی دھوکہ اسلام کو بھی دھوکہ ==
بد قسمتی میری کہ پھر ایک نئی خبر سے واسطہ پڑ گیا .خبر یہ تھی کہ وزیر حج نے اپنے چند خاندان کے لوگوں کو حج پر بھیجا.حج کی سعادت حاصل کرنے کے لئے جس جہاد کی جس ایمان کی جس جذبے کی جس چاہت کی جس خلوص کی جس فرض کی جس سنت کی جس دینی قوت کی جس جزبہ ایمانی کی ضرورت ہوتی ہے .وہ سب الحمد و للّہ ان لوگوں میں موجود تھیں .استعداد بھی تھی اور قربانی کا جزبہ بھی تھا اور نیت بھی تھی .مگر برا ہوا شیطان کا کہ جس نے بنا بنایا کھیل بگاڑ کے رکھ دیا .کیونکہ وزیر صاحب نے مادیت پرستی کو بھی شامل کر دیا کیونکہ ان کا دائرہ کار حدود سے تجاوز کرنے کا اختیار رکھتا تھا .سو انہوں نے یہ کام شیطان کے ورغلانے پر نہ کیا .بلکہ اپنا حق رکھتے  ہووے یہ کیا کہ اپنے ان چند افراد کو باقائدہ روزانہ کی اجرت پر معاوضہ بھی دے دیا .اور اس بہتی گنگا میں سیکٹری صاحب نے بھی نہایا .کیونکہ جو سبق پڑھاتے ہیں گر سکھاتے ہیں .آئین و قانون میں لوپ ہول سقم جو ہوتے ہیں .سیکٹری صاحب وزیر موصوف کو بتانے کی تنخواہ لیتے ہیں .اس لئے ان کا بھی گنگاہ میں نہانے کا حق بنتا تھا .تو انہوں نے بھی دو تین کو حج کروا ڈالا مفت میں .جسے کہتے ہیں حج کا حج .سیر کی سیر .نفح کا نفح .مال بھی بنایا تنخواہ بھی لی اور حج کا فریضہ بھی ادا کر ڈالا.رشتے داروں کو ہار ڈالنے کا  موقعہ بھی  دے ڈالا.اور سب سے بڑی بات یہ کہ قوم کو بھی دھوکہ اور دین اسلام کو بھی دھوکہ .گو کہ یہ میری ذہنی اختراع ہے .وزیر موصوف کی سوچ میں بھی یہ بات نہیں تھی .وہ تو ہر زاوئیے سے اپنا حق سمجھتے ہیں .یہ تو اس ملک کی بد قسمتی ہے کہ ہم کو تو فتویٰ بھی صرف اپنا نظر آتا ہے .دوسرے کی حدیث کو بھی  تو ہم ضعیف کہ کر ٹال دیتے ہیں .جیسے رشوت لینے والا رشوت کو اپنا حق سمجھتا ہے .کیونکہ دوسروں کو اور اپنے دل کو یہ کہ کر مطمن  کر دیتا ہے کہ میں نے رشوت دینے والے کا جایز کام کیا ہے کوئی نا جایز نہیں کیا .اس لئے وہ رشوت کو اپنا حق سمجھتا ہے .آپ کوئی خبر دیکھ لیں کوئی سیاسی بیان دیکھ لیں .اس میں غور کر لیں کہ اس کے اندر قوم کو بھی دھوکہ اور اسلام کو بھی دھوکہ اتنا سر عام دیا جا رہا ہوتا ہے .کہ میرا وزیر الالان خدا سے یہ کہ رہا ہوتا ہے کہ کر لو جو کرنا ہے .کہ میں نے سفید کوا بھی دیکھا ہے .آجکل کے وزیر یہ ثابت کرتے ہیں کہ کوا صرف کالا نہیں ہوتا سفید بھی ہوتا ہے .میاں نواز شریف کی تقریر سے پہلے ہی وزیر مشیر بغلیں بجا رہے تھے کس کو دھوکہ قوم کو یا اسلام کو .میاں نواز شریف اور شہباز شریف ساری وزارتیں سارے اختیارات اپنے پاس رکھ کر کس کو دھوکہ دے رہے ہیں .چیرمین سینٹ احتساب کی بات کر کے کس کو دھوکہ دے رہے تھے .یہ چیرمین سینٹ ہیں یہ احتساب کے لئے ملک کی خدمت کیوں نہیں کرتے .کس نے ان کو روکا ہے .کیا ان کے پاس کوئی اختیار نہیں .اسحاق ڈار اور پرویز رشید کسانوں کے حق میں بیان دے کر کس کو دھوکہ دے رہے تھے .کسان کو قوم کو یا اسلام کو .اگر ان کو کسانوں کا اتنا ہی درد ہے .تو وہ ہولڈنگ ٹیکس کسانوں کا کیوں معاف نہیں کر دیتے .بجلی اور گیس کے بلوں میں اضافی سرچارج کیوں معاف نہیں کر دیتے .اگر ان کو کسانوں کا اتنا ہی درد ہے تو سب کسانوں کو ١٢ ایکڑ ١٢ ایکڑ زمین ہی الاٹ کر دیتے .نہری پانی کی منصفانہ تقسیم ہی کر دیتے .اور اگر مزید کسان سے ہمدردی کرنا چاہتے ہیں .تو ہر کسان کو ایک ایک ٹریکٹر ہی مفت دے دیں.صرف الفاظوں سے قوم کو دھوکہ دینے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے .عملی اقدامات اخلاص کے ساتھ کہیں نظر نہیں آتے .کسی میرے دوست نے سچ کہا تھا کہ دھوکہ دیتے ہیں یہ بازی گر کھلا..تو جس دن ہم اپنے اصول ضابطے ترجیحات اسلام اور قوم پر فوکس کریں گے .تب جا کر ہمارا قبلہ درست ہو گا .اور منزل پر پںچنے کی تیاری ہو گی .ابھی اس ماحول میں تو ہم قوم کو دھوکہ ہی دھوکہ دے رہے ہیں .دیکھیں نا غور کریں کہ میں نے یا کسی اور نے تو میاں صاحب کو نہیں روکا کہ وہ مستقل ایک اچھا عقلمند قابل وزیر خارجہ نہ رکھیں .اور فاطمی صاحب اور سرتاج عزیز کی جی حضوری سے باہر نہ نکلیں .حکمرانوں کو قوم کو سچ حق بتانے کا فریضہ ادا کرنا ہو گا .قوم کو نندی پور پراجیکٹ .بجلی .گیس .کے معاہدوں کی بھول بھلیوں میں نہیں الجھانا چاہئے .کس کو کیا کرنا چاہئے کس کی کیا ذمہداری تھی .کہاں بھول ہوئی کہاں غلطی ہوئی .قوم کو ہر وقت اعتماد میں لینا ہو گا .ورنہ جھوٹ مکاری دھوکہ فراڈ سے کب تک حقایق چھپاتے رہیں گے .یہ نہ قوم کے لئے اچھا شگون ہے نہ اسلام کے لئے .نہ دنیا کے لئے نہ آخرت کے لئے ..ہمارا کام ہے حکمران کو صحیح سمت کا درس دینا .کاغذی جہاد کرنا .سو ہم کر رہے ہیں .اپنے حصہ کی شمع جلانا .سو ہم جلا رہے ہیں .آجکل کی خبروں  کے حوالے سے چند سال پہلے ایک نظم لکھی تھی کالم کا حصہ بناۓ دیتا ہوں ملاحضہ فرما لیں .
========جہالت  کا دور ہو اور ہو ابوجہل بھی =================== تو عظیم ہستی کا انقلاب سرور کونین آتا ہے
==============آگہی  عشق ہو اور ہو آتش نمرود بھی =================تو پھر  ابراہیم خلیل اللہ کا انقلاب امتحان آتا ہے
=========خدائی  دعوے دار کی شکل میں جب ہو  فرونیت .============= === تو پھر  موسیٰ کلیم اللہ کا انقلاب داستان آتا ہے
===========یزیدیت  کا دور جب لوٹ کے آے=========
=============تو ریگستان کربلا پے انقلاب حسین آتا ہے =====
=======مکرو فریب اور  بھوک و افلاس  کی جنگ  ہو =========
=======تو  خاک نشینو -انقلاب فرانس و ایران آتا ہے ==========
=======دہشت گرد اور حاکم جب ہو احساس زیاں سے عاری=======
=======مفاد پرستوں کی جنگ سے انقلاب طوفان آتا ہے ========
=======ظلم و نا انصافی سے ہجوم بن جاتے ہیں قوم جاوید ========
=======شعور بے شعور کی جنگ سے انقلاب کارواں آتا ہے =======
=======قوم کا درد بھی ہو اور ہو لیڈر با کردار بھی ============
=======قاعد بنتا ہے جب  قاعد تو انقلاب پاکستان آتا ہے =========
=======جاوید اقبال چیمہ ..میلان ..اٹلی .............==============

Tuesday, September 29, 2015

====جمہوریت کس طرح کی عدالتیں چاہتی ہیں ===
یہ کیسا قانون ہے کہ ریاض کیانی پر الزام ہو اور اس کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے گھر نہ بیجھا جاۓ .یہ کیسی جمہوریت ہے کہ سربراہ حکمران اور سربراہ جمہوریت انصاف کے راستے میں خود ہی رکاوٹ بن جاۓ .اس سے جمہوریت کو کیا فایدہ ملنے والا ہے .کیا میاں نواز شریف کو اس بات کا احساس ہے .کہ ریاض کیانی اور نجم سیٹھی جیسے لوگوں کو مراعات دے کر جمہوریت کو کونسا تمغہ جمہوریت دیا جا رہا ہے .یا چند اچھے ججوں کو اچھا فیصلہ کرنے پر گھر بھیج کر قوم کو کونسا پیغام دیا جا رہا ہے .ججوں کو اداروں کو عدالتوں کو قوم کو دنیا کو کیا پیغام دینا مقصود ہے .کہ ہم حرف کل ہیں ہم جمہوریت کے ٹھیکیدار ہیں اور جمہوریت ہم سے ہے اور ہمارے بغیر جمہوریت کچھ بھی نہیں ہے .کیا میرے حکمران نے حسنی مبارک اور صدام کی جمہوریت سے کوئی سبق نہیں سیکھا .یا سیکھنا ہی نہیں چاہتے .حکمران کو کر لو جو کرنا ہے کی پالیسی پر نہیں چلنا چاہئے .بلکہ ہر مخالفت کی بنیاد پر اٹھنے والی آواز کو لبیک کرنا چاہئے .اور حکمران کو ملک کی سالمیت کی خاطر فوری رد عمل پھرتی سے دکھانا چاہئے .اور مخالفوں کی زبان بند کرنے کے لئے ان کو دعوت دینا چاہئے کہ أو .ملکر مسلہ کا حل تلاش کرتے ہیں .اچھے اخلاق اچھی روایات کا مظاھرہ کرنا ہو گا .پاکستان کو دنیا میں ایک با عزت مقام دینے کے لئے .یہ کیسی جمہوریت کیسی عدالتیں کیسا انصاف کا نظام ہے .کہ آپ عدالتوں سے حکم امتنائی لیں اور پھر عدالتوں سے فیصلے اس وقت آئیں.جب ان کی ضرورت ہی نہ ہو .یہ کیسا قانون ہے کہ خادم اعلی پانچ سال حکومت کریں حکم امتنائی پر .سعد رفیق وزارت کریں حکم امتنائی پر .پل سڑکیں روک دی جایں حکم امتناعی پر .عوام کو قوم کو نقصان پنچایا جاۓ ترقی کو روک دیا جاۓ حکم امتناعی پر اور پھر فیصلے بھی سال ہا سال لٹکا دے جایں .عدالتوں کے فیصلوں کے آگے انصاف کے آگے روڑے اٹکا کر سیاستدان پورے زور شور سے مکمل پروٹوکول سے اپنی پوری طاقت سے اپنی پوری ہٹ دھرمی سے بشیرمی کے ساتھ یہ کہتا پھرے کہ ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں .عدالتیں جو فیصلہ دیں گی .اس کا احترام کریں گے .جس طرح اصغر خان کیس .بلدیاتی الیکشن .کالا باغ ڈیم .پر سیاست ہو رہی ہے .مثال دے رہا ہوں .کہ ایک طرف سیاستدان اپنے کیس کو ١٢ سال تک میڈیکل سرٹیفکیٹ دے دے کر لٹکتا ہے .عدالتوں کا مذاق اڑاتا ہے .ان سے کھیلتا ہے .پھر بڑی ڈھٹائی سے کہتا ہے کہ ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں .کبھی ججوں کو ٹرانسفر کرتا ہے کبھی رعب ڈالتا ہے کبھی اپنا اثرو رسوخ استمعال کرتا ہے کبھی جمہوریت کبھی حکمرانی کا سہارا لیتا ہے .اور پھر کہتا ہے ہم جمہوریت کے چیمپئن ہیں .آخر یہ کب تک قوم کے ساتھ مذاق ہوتا رہے گا .پارلیمنٹ کی عمر پانچ سال اور فیصلوں کو تیس سال کی ضرورت ہے .اگر کچھ بھی نہیں ہونا کسی کو نہ سزا ہونی ہے .تو پھر یہ سارا جمہوریت کا انصاف احتساب کا ڈرامہ ختم کرو .پھر ایک نیا این .آر .او .کر لو جمہوریت والا .کہ پچھلے سارے کیس ختم .ساری کہانیاں ختم .ساری کرپشن ختم .کھیل ختم پیسہ ہضم.ہم پاکستان کو جمہوریت کو انصاف کو احتساب کو آج سے سٹارٹ کرتے ہیں .اس کا مطلب ہے .مشرف نے این .آر او .صحیح کیا تھا .ہونا تو یہ چاہئے تھا مہذب معاشرے کی طرح مہذب جمہوریت کی طرح.یورپ کی طرح.کہ جمہوریت میں حکمران آتے جاتے رہیں حکومتیں بدلتی رہیں .مگر ادارے اپنا کام کرتے رہیں .ترقی کا عمل جاری و ساری رہے .جمہوریت کے ٹھیکیداروں کو یہ حق نہ ہو .کہ وہ ہر ادارے کے اوپر اپنی مرضی کا آلو بٹھا دیں.تا کہ وہ ادارے کو چلانے کی بجاۓ تباہ و برباد کرتا پھرے .صدیق بلوچ بھی اسی جمہوریت کا ٹھیکیدار تھا جو ہر روز سپریم کورٹ نہ جانے کا اعلان کیا کرتا تھا وہ بھی حکم امتناعی کے پیچھے چھپ گیا .اب دیکھتے جاؤ .ایاز صادق کب حکم امتنائی لاتا ہے یا قربانی کا بکرا بنتا ہے .اسحاق ڈار کا کوئی حلقہ انتخاب نہیں پرویز رشید کی طرح.وہ بھی جمہوریت کا چیمپین ہے جو عالمی بینک سمیت عالمی اداروں کا دلدادہ ہے .اور منی لانڈرنگ کا ماہر .کوئی جمہوریت کا ٹھیکیدار یہ بتا سکتا ہے کہ اب .ایف .آئی .اے ..اسحاق ڈار کو بھی ٩٠ دن کے لئے اندر کر سکتی ہے .یہ کیسی  جمہوریت ہے جس میں سارے قانون ساری ترامیم عام آدمی کے لئے ہیں .مگر پھر بھی شامت عام آدمی کی آتی ہے .مجھے بھی عام شہری کی طرح شیرم آتی ہے وزیروں مشیروں چمچوں کے بیانات سن کر .مگر افسوس کہ حکومت میں ایک بھی زی شعور ایسا نہیں کہ جو اقتدار کے علاوہ یا حاکم کی خوشنودی کے علاوہ سوچتا ہو .خدا رحم کرے اس ملک پر اس جمہوریت پر جہاں داؤ پیچ دھوکہ فراڈ جھوٹ بد دیانتی منافقت کو سیاست کہا جاتا ہے .پھر بھی جمہوریت کے فرماں روا کہتے ہیں کہ ملک میں بار بار مارشل لا کیوں لگتا ہے .یار کچھ تو شرم و حیا کرو .کچھ تو غیرت کھاؤ.خدا جانے میرے جمہوریت کے ٹھیکیدار کیا چاہتے ہیں .اعلی عدالتوں کے ججوں کے ریمارکس جب سامنے آتے ہیں .تو لگتا ہے .چور اور چوکیدار ملے ہووے ہیں .یورپ میں بلکہ پوری دنیا جہاں بھی بات کرو اب لوگ پاکستان میں ایک ہی آدمی کی اور ایک ہی ادارے کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں .وہ ہے جنرل راحیل شریف اور پاکستانی فوج .پاکستانی جمہوریت اپنے جھوٹ فریب اور کرپشن کی وجہ سے نفرت کا سبب بنتی جا رہی ہے .میاں نواز شریف کو موقعہ ملا تھا کہ وہ جمہوریت کے سارے کالے داغ  دبھے دور کر سکتے تھے .پبلک اکاونٹ کمیٹی اور آڈٹ رپورٹ والے محکمے کو .ایف .آئی .اے.اور نیپ کو .ان سب احتساب کرنے والے اداروں کو لگام بھی ڈال سکتے تھے اور پٹری پر بھی ڈال سکتے تھے نواز شریف ہیرو بن سکتے تھے مگر افسوس کہ وہ اپنے پرانے خول سے باہر نہ نکل سکے .پھر بھی ابھی موقعہ ہے .نواز شریف میرے اس کالم سے چند پواینٹ پر عمل کر لیں تو ہیرو بن سکتے ہیں .اس جمہوریت کا نواز شریف کا ایک ہی کارنامہ ہے وہ قابل تحسین ہے .کہ نواز شریف راحیل شریف سے تعاون کر رہے ہیں .چاہے وہ با  امر مجبوری ہی کر رہے ہیں.مگر افسوس اس جمہوریت کی اپوزیشن پر کہ وہ بھی اپنا جمہوری کردار نبھانے میں مکمل طور پر ناکام دیکھنے میں آئی ہیں .تو اس سے صاف ظاہر کہ لفظ جمہوریت کا کوئی قصور نہیں .قصور اس لفظ کو استمعال کرنے والوں کا اور بدنام کرنے والوں کا ہے .کاش اس ملک میں  یا تو صحیح جمہوریت آ جاۓ یا صحیح مارشل لا ..جاوید اقبال چیمہ .میلان .اٹلی ..٠٠٣٩٣٨٩٦١٠٧٨١١ 

Sunday, September 27, 2015

======انقلاب ناگزیر ہے =======
یہ بھی انقلاب زمانہ تھا کہ پاکستان سے واپس اٹلی کی طرف سفر کرتے ہووے سوچا تھا کہ آپ کو اٹلی کی کاغذوں میں اس دفعہ سیر کرواؤں گا .اطالوی لوگوں کی کہانیاں بتاؤں گا .رهن سہن بول چال اخلاق شادی بیاہ رسم و رواج انصاف اور قانون کے بارے میں بتاؤں گا .مگر قدرت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ جہاز کے اندر بیوی پر فالج کا حملہ ہونے کے  بعد .اس  کی بیماری میں ایسا الجھا کہ کہانیاں لکھتے لکھتے خود کہانی کا حصہ بنتا چلا گیا .ہر موڑ پر ایسی ایسی کہانیوں نے جنم لینا شروع کر دیا کہ میں پاکستان کے کرپٹ حکمران کرپٹ نظام کو بھولنا چاہتا تھا .مصروف اتنا تھا کہ ٹی.وی .بھی نہ دیکھ سکا .پھر کیا ہوا .عید کا دن آیا تو سوچا دوستوں سے گپ شپ کرتے ہیں .تو پھر ووہی دوستوں کے گلے شکوے شروع ہو چکے تھے .کہ راحیل شریف کی تعریف والے کالم میں نے کچھ جلدی میں لکھے ہیں .ابھی انتظار کر لیا ہوتا .ابھی کچھ رازوں سے پردہ اٹھنا باقی ہے .دوستوں کا اشارہ پنجاب کی طرف تھا کہ پنجاب میں کاروائی نہ ہونا اور نہ کرنا راحیل شریف کی ذات پر اک سوالیہ نشان بنتا جا رہا ہے .مگر میں نے پھر ایک مرتبہ بھر پور طریقے سے فوج اور راحیل شریف کا دفاع کرتے ہووے دوستوں سے کہا کہ اگر اس دفعہ راحیل شریف پاکستان کا گند صاف نہ کر سکا تو پاکستان کا نظام تبدیل نہیں ہو سکتا .اور جبتک پاکستان کا نظام تبدیل نہیں ہوتا اس وقت تک پاکستانی قوم کے حالات تبدیل نہیں ہو سکتے .دیکھنا یہ ہے کہ راحیل شریف کا یہ آپریشن کس حد تک جاتا ہے .کیا راحیل شریف کو تین سال کی ایکسٹنشن دی جاتی ہے .کیا راحیل شریف اس ملک کا نظام تبدیل کرنے کے لئے حکمران بننا قبول کرتے ہیں کہ نہیں .سوالات بھوت ہیں جن کے جوابات آنے ابھی باقی ہیں .مگر پاکستانی قوم کے پاس وقت بھوت کم ہے .عالمی اجینڈا اسلام مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے .اور پاکستان کو جلد اور تیز تر انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے .انقلاب ناگزیر ہے .کیونکہ اگر ہم تھوڑا سا امن قایم کرنے میں کراچی کی حد تک کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو پاکستانی قوم کا پھر بھی کرپشن .نا انصافی .اقرباپروری .سفارش .مہنگائی.بیروزگاری .پولیس کلچر .پٹواری کلچر.بجلی .گیس .پانی .کے معاملات سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں .اسی لئے تو کہتا ہوں کہ پاکستانی قوم کے لئے انقلاب نا گزیر ہے .سرمایا داروں .جاگیرداروں .وڈیروں .کن ٹٹوں.بدمعاشوں کے دقیانوسی نظام کو آپ کیسے تبدیل کریں گے .گندی ذہنیت کیسے تبدیل کریں گے .اگر آپ یورپ کی طرز پر اپنے معاشرے کو مثبت طرز پر استوار کرنا چاہتے ہیں .جہاں کوئی کسی کا رشتے دار سفارشی نہیں ہوتا .تو اس کے لئے آپ کو انقلاب کی ضرورت ہے .اس کے باوجود اگر آپ بضد ہیں کہ آپ نے جمہوریت کے ذریعہ ہی نظام کو تبدیل کرنا ہے تو بڑے شوق سے سو سال مزید انتظار کریں مجھے کوئی عتراض نہیں .کیونکہ جمہوریت جو رنگ دکھا رہی ہے اور دکھا چکی ہے وہ آپ کے سامنے ہے .جس جمہوریت کے خلیفہ بادشاہ سلامت الیکشن کمیشن پٹواری پولیس کو اپنی ذات کے لئے استمعال کرنا چاہتے ہوں وہ نظام کیوں تبدیل کریں گے .اور جس جمہوریت کا سربراہ امریکا میں بیٹھ کر یہ التجا کر رہا ہو کہ میری مودی سرکار سے ملاقات کروا دو .اس جمہوریت کے ٹھیکیداروں سے آپ یہ توقعہ کرتے ہیں کہ یہ نظام تبدیل کر دیں گے .اس ملک کو ایک بھوت بڑے آپریشن کی احتساب کی انصاف کی ضرورت ہے .جس کا نام ہے انقلاب ..جس سے جاگیروں کا از سر نو نظام رایج ہو .تمام زمینیں پلاٹ پلازے بلڈنگ واپس لی جائیں .جو کوڑھیوں کے مول اپنوں میں ریورھیوں کی طرح بانٹے جا چکے ہیں .یہ بندر بانٹ .خزانے کی لوٹ مار جب تک ان نا انصافیوں کا ازالہ نہیں ہوتا .میری مادیت پرستی کی گندی ذہنیت ختم نہیں ہو سکتی .اچھے معاشرے کو دیکھنے کی خواہش رکھنے والوں کو سوچنا ہو گا کہ کرپشن کے مال سے استوار کی ہوئی امارت کو عمارت کو ہلال کی کمائی کے جھونپڑے سے موازنہ نہیں کر سکتے .اچھوت کی زندگی گزارنے والوں کو آپ انصاف اور ایمانداری کا سبق پڑھاتے جائیں کوئی اثر نہیں ہو گا ..آج اٹلی کے ایک چھوٹے سے قصبہ میں صفائی کا دن منایا جا رہا ہے .ہر چھوٹا بڑا صفائی میں لگا ہے .امیر غریب کن ٹوٹا بدمعاش کا کوئی تصور نہیں .ہر کوئی شاپروں میں گند ڈال رہا ہے .سب سے بڑی بات یہ کہ ہر نسل کے لوگ شامل ہیں .میرے جیسے گندی ذہنیت رکھنے والے پاکستانی بھی عربی .پیرو .اکواڈور .افریکا .برازیل .مراکش .تیونس بنگلہ دیش .انڈیا .البانیا .رومانیہ .اٹالین کے ساتھ ساتھ اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں .یہ منظر بھی عجیب ہے .اور عجیب لگ رہا ہے .مجھے پاکستان کو ایسے روح پرور مناظر کے ساتھ دیکھنا ہے .٦٥ سال سے کسی ڈکٹیٹر کسی جمہوریت کے ٹھیکیدار نے میری روح کو تسکین فراھم نہیں کی .میرے لئے یہ فرعون شداد کیا اہمیت رکھتے ہیں .میری بلا سے ملک میں اگر ہر روز مارشل لا آ جاۓ یا جمہوریت .مجھے کیا فرق پڑے گا .مجھے فرق نظر آے گا .جب نظام بدلے گا .جب میں اور نواز شریف زرداری ایک ہی لائیں میں کھڑے ہو کر راشن یا ویگن  کی ٹکٹ یا جہاز کی بورڈنگ کروا رہے ہوں گے .یا میرا بیٹا اور زرداری کا بیٹا ایک ہی پوسٹ کے لئے انٹرویو کی قطار میں ہوں .میرٹ پر کام ہوں میرٹ پر داخلے ہوں .تب کہوں گا .ملک میں نظام ہے .مجھے ذرا چیف جسٹس کے بیٹے یا کسی بیوروکریسی کے خاندان سے کوئی لڑکا لڑکی دکھا دیں.جو بغل میں ڈگری لے کر وزیروں کی گاڑی کے پیچھے بھاگ رہا ہو .ہمیشہ میرے جیسے غریبوں کے بچوں کے ساتھ یہ ہوتا ہے .کس ترازو میں تولا جاتا ہے وزیروں کو .ہے کوئی ان کو پوچھنے والا .ہے کوئی ان کو الٹا لٹکانے والا .کون ہے جو ان کی کارکردگی ان کے اخراجات دیکھے.وزیر پٹرولیم سے پوچھو کہ تین سال کی کارکردگی کیا ہے .کتنا خزانے کو نقصان پنچایا کتنا قوم کو فایدہ ملا .وزیر ریلوے سے پوچھو کتنی ریلوے کی زمینوں  کی جانچ پڑتال کی .وزیر تجارت سے پوچھو کیوں انڈیا سے تجارت کا مائدہ کیا .کیا انڈیا کے آلو پیاز پاکستان سے افضل ہیں .کیا .پی.آئی .اے ..سٹیل مل .کالا باغ ڈیم کو انقلاب کی ضرورت نہیں .اب جب کہ خواجہ آصف نے نندی پور کی ذمہ داری قبول کر لی ہے .تو کون ہے .مائی کا لال جو اس کو الٹا لٹکاۓ.میں کہتا ہوں کہ ٨١ ارب روپے کو ایک طرف رکھ دو .صرف ان اشتہاروں کا حساب دے دو قوم کو .جو نندی پور کے افتتاح کے وقت لاہور سے گوجرانوالہ سیالکوٹ نندی پور تک .جی.ٹی.روڈ.پر شریف برادران کی مشہوری کی گئی تھی .صرف ان کروڑوں کا ہی حساب قوم کو دے دیں..اسی لئے کہتا ہوں کچھ نہیں ہو گا .انقلاب ناگزیر ہے .اور اگر راحیل شریف واقع ہی کچھ کرنے کے موڈ میں ہے .تو قوم تو تیار ہے .قوم تو انقلاب کے لئے راحل شریف کی طرف اس طرح دیکھ رہی ہے .جس طرح آسمان کی طرف دیکھا جاتا ہے کبھی کبھی خدا سے مدد کے لئے .میں تو آخر میں یہی که سکتا ہوں .کہ راحیل شریف اگر تمہارا شریف برادران کے ساتھ کوئی مک مکا نہیں ہوا .تو قدم بڑھاؤ قوم تمھارے ساتھ ہے .کیونکہ انقلاب کے لئے کوئی تو لیڈ کرنے والا لیڈر قوم کو چاہئے .اور اگر وہ ساری خوبیاں اور کارکردگی راحیل شریف میں ہیں .جن کا مظاھرہ وہ اگلے مورچوں پر اور عالمی سطح پر کر رہا ہے .تو میرے دوستوں کو کیوں عتراض ہے .ہمارا کام کیا ہے ہمارا جہاد کیا ہے .اچھے کو اچھا کہنا .برے کو برا کہنا .فرعون کے سامنے کلمہ حق کہنا .تو پھر مجھے کیوں کہتے ہو کہ میں راحیل شریف یا فوج کا قصیدہ خان ہوں .میں تو باغی ہوں اس نظام سے .جو کچھ راحیل شریف کر رہا ہے یہ انقلاب ہی تو ہے .اور اگر وہ دو قدم آگے بڑھ کر نظام کو بدلتا ہے .سب کا احتساب کرتا ہے تو واہ کیا بات ہے ==..نہ بدلے جس سے  نظام وہ انقلاب  افکار نہیں ہوتا =بہہ جاۓ جو قوم کی خاطر وہ لہھو بیکار نہیں ہوتا ===جاوید اقبال چیمہ ..میلان .اٹلی .٠٠٣٩.٣٨٩.٦١٠٧٨١١ 

Thursday, September 24, 2015

==========انقلاب احتساب ========
====== محلوں  سے محلات کا قصہ سفر بتاؤں کیسے
======فخر انسانی کو بتا فخر فرشتہ  بناؤں کیسے
======کئی نسلوں  سے  فرعون  بن  چکے  ہیں  ہم
======خونی چہرہ اور خونی خنجر  چھپاؤں  کیسے
======نچوڑا ہے جو قوم پاکستانی کا خون ہم  نے
======قسمت اور مقدر کے  کھیل سے پردہ اٹھاؤں کیسے
======تو بن کے حاکم اور میں بنا کے تجھے کرتا ہوں کرپشن
======بتا میرے حاکم تجھے کرپشن کا   ذمہدار  ٹھہراؤں  کیسے
======اگر اس گند کو کرنا چاہتا ہے صاف و شفاف کوئی
======انقلاب احتساب ہے حل اس کا یہ تم کو سمجھاؤں کیسے
======بے حس بے شعور تو بھی تھا بے بس جاوید بھی ہے
======ہر فرد ملت ہے اب لاش یہ  منظر تم کو دکھاؤں کیسے
======جاوید اقبال چیمہ ..میلان ..اٹلی ..عید کا تحفه حکمران کیلئے .

Wednesday, September 23, 2015

........................................بکرا ..................................
..............بکرا  عید پر ہم  نے بھی کرنا ہے قربان  اک بکرا
.............سفید پوشی کی  بھرم  کا   ہے قدر دان    اک   بکرا
.............خون تو پہلے ہی بھوت بہ رہا ہے ہر طرف
............چڑھاوا جمہوریت کے لئے  ہے  شان  اک  بکرا
............آمریت  سے نکلا  تو پھنس گیا شکنجہ جمہوریت میں
............مجبوری کے پس منظر میں ہے انقلاب امتحان اک بکرا
...........جب چاہتا ہے یہاں   سارے  گر  آزما  جاتا  ہے
..........واہ  امریکا   کے  لئے   ہے  پاکستان  اک  بکرا
...........ذبح کرنے  سے  ہو  گا  قایم  دنیا  میں  امن
...........اسرئیل  کی  نظر  میں ہے  مسلمان  اک  بکرا
..........اتار  لو کھال میری  بہا دو  خون میرے حاکم
.........تیرے اقتدار کے لئے میں ہوں حکمران . اک  بکرا
.........گو نواز  گو کہتا ہوں مگر تجھے سمجھ  نہیں  آتی
.........انسانوں کی زبان کو بھی سمجھتا ہے زبان  اک  بکرا
.........خرید  لو  مجھے  اور  لے  لو  گوشت  کا مزہ جاوید
........لکھا  لو قصیدہ اپنا کہ میرا بھی ہے   قلمدان  اک بکرا
............جاوید اقبال چیمہ ..اٹلی والا ..٠٣٠٢٦٢٣٤٧٨٨ 

Tuesday, September 22, 2015

========اٹلی کی ڈائری =  قسط نمبر دو ============
اس سے پہلے کہ میں اپنے پچھلے کالم کے تسلسل سے آپ کو آگے لے کر چلوں .آپ کو تھوڑا سا یورپ اور پاکستان کا فرق بتا دیتا ہوں .یا اپنی اور یورپ کے نفسیاتی فرق سے آگاہ کر دیتا ہوں .کہ ہم یورپ میں آ کر وہ چیزیں وہ سٹائل کیوں پسند کرنے لگ جاتے ہیں .جن کو ہم پاکستان میں برداشت نہیں کرتے .مسلاً پاکستان میں لائین میں لگنا اپنی باری کا انتظار کرنا ہمارے لئے کیوں مشکل ہوتا ہے .پاکستان میں ٹیکس دینا نہیں چاہتے جب کہ یورپ میں ٹیکس نہ دینے کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں ہوتا .بھوت سارا فرق ہے پاکستان اور یورپ کے لائف سٹائل میں .تفصیل آہستہ آہستہ اگلی نششت پر انشااللہ.گو کہ میں اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتا کہ پاکستان میں سب اچھا ہے اور یورپ میں برایاں ہی برایاں ہیں .یا پاکستان کو برا لکھوں اور یورپ کو  پاک صاف لکھوں .ایسا نہیں ہے .ہر قسم کی برائی اب پوری دنیا میں پائی جاتی ہے .اب حالات بدل چکے ہیں نہ پاکستان میں اسلامی نظام کا وجود ہے نہ یورپ میں صرف عیسایت ہے .اب پاکستان میں جتنا مسلمان نماز کا پابند ہے اس سے زیادہ یورپ میں ملمان نماز کا پابند ہو رہا ہے .یہ مسلمانوں کی تبلیغ کا اثر ہے .بلکہ ایک دکھ والی بات عرض کرتا چلوں کہ یورپ کو برا اور کافر کافر کہنے والو ذرا اپنے گریبان میں جھانکو کہ اب پاکستانی حکمران کی نا اہلی اور اسلام دشمنی کا یہ عالم ہے .کہ بھوت ساری مسجدوں کا یہ حال ہے کہ صبح تہجد کے وقت مسجد کے دروازوں کو تالے لگے ہوتے ہیں .اس کو مسجد کی بدنصیبی کہو  گے یا مسلمان کی .کہ جس مسجد میں تہجد کی نماز پڑھنے والا کوئی نہ آے.اس مسجد اس محلے داروں پر اس کے کیا اثرات ہوں گے .میں ابھی پاکستان سے آیا ہوں .تہجد کے وقت میں اپنے محلے کی مسجد کے باہر آدھا آدھا گھنٹہ ٹہلتا رہتا تھا .مگر دروازہ جب کھلتا تھا تو تہجد کا وقت گزر چکا ہوتا تھا .مگر یورپ میں آ کر حیران رہ گیا .کہ آذان کے وقت سے آدھا گھنٹہ پہلے مسجد گیا تو دروازہ بھی کھلا تھا اور دو نمازی تہجد بھی پڑھ رہے تھے .فورن ذہن پاکستان کی طرف چلا گیا .بھوت ساری یادیں تازہ ہو چکی تھیں .کہ میرے گھر کے ارد گرد چار مسجدوں کا جائزہ لیا تھا .کس کا دروازہ تہجد کے وقت کھلتا ہے .ہاں تو ذکر کر رہا تھا کہ کیوں اپنی باری کا انتظار کیوں نہیں کرتے .اس لئے یورپ میں اک نظام ہے سب اس کے پابند ہیں .کوئی کن ٹوٹا بدمعاش یا سفارشی نہیں ہوتا .جو لائین کو توڑے .مختصر اتنا ہی کافی ہے عقلمند کے لئے اشارہ ہی کافی ہے .میں اگر کتنا ہی مہذب ہوں گا کتنا ہی اخلاق والا ہوں گا مگر جب اپنی حق تلفی ہر ادارے ہر محکمہ ہر دفتر میں ہوتی دکھوں گا تو میرا انداز خود بخود بدل جاۓ گا .اسی لئے جب ہم مہذب قوم کو چھوڑ کر مہذب انداز میں جہاز سے اتر کر لاہور ائیرپورٹ کے حال میں داخل ہوتے ہیں .تو دیکھتے ہیں  کچھ بیوروکریٹ کے کچھ افسر شاہی کے کچھ سیاسدانوں کے لاڈلے تلاش کیے جاتے ہیں اور ان کے پاسپورٹ پر سب سے پہلے بغیر کسی انکورای کے مہریں لگ جاتی ہیں .تو  اس وقت میرا دماغ گھوم جاتا ہے .اور میرا سارا اخلاق ختم ہو جاتا ہے .اس وقت میں دو چار اپنے آپ کو دو چار پاکستانی حکمران کو سنا دیتا ہوں .جس سے اک تماشہ لگ جاتا ہے .یہ شروعات ہوتی ہے پاکستانی سر زمین میں داخل ہوتے وقت .آگے آگے کی کہانیاں آپ سنیں تو مزید حیران ہو جایں گے .تو بھر حال اپنی اصل کہانی کی طرف لوٹتے ہیں .تو جب پولیس والا چلا گیا اور مجھے سیکورٹی والی لڑکی کے سپرد کر گیا تو میں اب اس لڑکی کے رحم و کرم پر تھا .ایک طرف مریض کی پریشانی دوسری طرف ائیرپورٹ سیکورٹی کا معاملہ تھا .نہ اکیلا ائیرپورٹ کے اندر داخل ہو سکتا تھا نہ سیکورٹی والی لڑکی سے یہ کہ سکتا تھا کہ جلدی کرو .کیونکہ اٹالین لوگوں کی عادت ہے کہ یہ بڑے جلدی ڈسٹرب ہو جاتے ہیں .کام آرام آرام سے کرتے ہیں .کام کے دوران کسی کی بے جا مداخلت پسند نہیں کرتے .اٹالین سے بات کرنے سے پہلے معزرت کرنا پڑتی ہے .تب وہ آپ کی مدد کرتے ہیں .ورنہ کبھی کبھی جھاڑ بھی پلا دیتے ہیں .ویسے اخلاق والے لوگ ہیں .میں نے جرات کر کے بڑے پیار اور اخلاق سے اس سے بات کرنے کی پہلے اجازت لی .پھر اس کو اپنی ساری کہانی سمجھائی.باتوں باتوں میں اسے یہ بھی سمجھا دیا کہ ابھی یہ تینوں بیگ باہر لے کر جانے ہیں .باہر بیٹا انتظار کر رہا ہے .اسے بھی ساتھ لے کر چلنا ہے .پھر مریض کے پاس بھی جلدی پنچنا ہے .ڈاکٹر انتظار کر رہا ہے وغیرہ وغیرہ .میری دکھ بھری کہانی سن کر اس پر اتنا اثر ہوا کہ اس نے سارے کام چھوڑ دئے اور اپنے ساتھی کو بتا کر میرے ساتھ چل دی .جب ہم سامان لے کر باہر کی طرف نکلے تا کہ بیٹے کو ساری کہانی بتاؤں اور بیگ گاڑی میں رکھ کر جلدی مریض کے پاس پنچا جاۓ .مگر بیٹے کو تو پہلے ہی علم ہو چکا تھا .کیونکہ جو لوگ جہاز سے نکلے تھے انہوں نے باہر نکل کر ساری روادات بیان کر دی تھی .اب تو بیٹا صرف با امر مجبوری میرا انتظار ہی کر  رہا تھا .اس کے پاس اور کوئی چارہ کار نہ تھا .یہاں ایک اور حقیقت بھی بیان کرتا چلوں کہ میں جب بیٹے اور سیکورٹی والی لڑکی کے ساتھ سفر کر رہا تھا .تو بیٹا یقینن اپنی ماں کی صحت  کے بارے میں سوچ رہا ہو گا.مگر میرا ذہن اپنے دونوں ھینڈEبیگ کے بارے میں پریشان تھا .جن کے اندر میری بیوی کا زیور نقدی موبایل کمپیوٹر اور ضروری اشیاء تھیں .اور پھر ووہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا .جب ہم ائیرپورٹ کی ڈسپنسری میں پنچے تو دیکھ کر حیران رہ گے کہ وہاں نہ مریض تھا اور نہ ہینڈ بیگ .وہاں انفورمیشن والوں نے بتایا کہ آپ نے دیر کر دی .ایمبولینس والے کسی کا انتظار نہیں کیا کرتے .اب تم اپنی گاڑی میں فلاں ہسپتال پنچ جاؤ .......باقی آئندہ ...جاری  ہے ...جاوید اقبال چیمہ ..٠٠٣٩٣٨٩٦١٠٧٨١١ 

Sunday, September 20, 2015

====خبریں دینے والے جب خود خبر بنتے ہیں ===
انقلاب زمانہ دیکھئے کہ مٹی کا پتلا کیسے کیسے سہانے خواب ہر روز اپنے دل کے گوشوں میں سجاتا اور سنوارتا رہتا ہے .سو سو سال کی پلاننگ کل کی خبر نہیں .ہر روز یہ پانی کا بلبلہ کئی پانی کے بلبلوں کو نیست و نابود ہوتے دیکھتا ہے .مگر پھر بھی نہ  نصیحت پکڑتا ہے .نہ مادیت پرستی کی نہ خود غرضی کی نہ خود نمائی کی نہ نمود و نمایش کی سوچ کو بدلتا ہے .میں نے بھی جب پاکستان سے اٹلی کے لئے رخت سفر باندھا تو اس دفعہ پروگرام کچھ نرالے ہی تھے . ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پے دم نکلے والا معاملہ تھا .کچھ لوگوں سے پرفیوم کا وعدہ کچھ  دوستوں  یہ وعدہ  تھا کہ ہر روز اٹلی کی ڈائری لکھ کر بھیجوں گا کچھ سے سفر نامہ لکھنے کا وعدہ تھا .غرض کہ ہزاروں وعدے.مگر بات ووہی وہ وعدہ  ہی کیا جو وفا ہو جاۓ .کسی سے کہا کہ میں تم کو ہر روز فون کروں گا ..مگر کسی نے سچ کہ ہے کہ دنیا میں اور بھی غم ہیں محبت کے سوا .کسی نے سچ کہا تھا کہ ہر غم کو دھوویں میں اڑاتا چلا گیا جو مل گیا اس کو غنیمت سمجھ لیا جو نہ ملا اس کو بھلاتا چلا گیا .مگر ہم پھر بھی عقلمند کہلوانے کے باوجود عقل سے پیدل  نظر آتے ہیں کبھی کبھی میری طرح..اور خدا کے فرشتے بھی ہم پر دن میں لاکھوں  بار ہنستے ہوں گے کہ دیکھو یہ انسان دنیا کو سمیٹنے کے لئے کتنی منصوبہ بندی  رہا ہے .جب کہ اس کو اگلے لمحے پر بھی اختیار نہیں ہے .اپنے ارمانوں اپنی خواہشات  اپنی دنیاوی سوچوں کو سمیٹتے ہووے  لاہور ائیرپورٹ پنچ چکا تھا  اور بھوت کچھ پہلے سے انوکھا بھی دیکھ چکا تھا .یہ بھی تجزیہ کر چکا تھا کہ کیوں پی.آئی .اے .تباہ و برباد ہوا ہے .بورڈنگ لاونج میں پنچا تو نئی نویلی دلہنیں دیکھنے کو ملیں .جو یقینن سنہرے خوابوں کے ساتھ  اپنے  مجازی خدا سے ملنے ہ  کے لئے یورپ پہلی مرتبہ جا رہی تھیں .ان کو کیا معلوم تھا کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے .بھر حال سپنوں پر پابندی تو نہیں  لگائی جا سکتی .کچھ لڑکیوں نے ہاتھوں پر ترو تازہ مہندی لگا رکھی تھی .اور فون پر نہ ختم ہونے والی گفتگو سے لطف اندوز ہو رہی تھیں .لاہور سے مسقط کا سفر بھی لکھنے کے قابل تھا .پھر مسقط اومان ائیرپورٹ کی رنگینیاں قلمبند کر چکا تھا .گلف اخبار کے تبصرے تجزیے بھی دیکھ اور پڑھ چکا تھا .اپنے تخلیات کے ساتھ جہاز میں بیٹھ چکا تھا جس فلایٹ کا نام ١٤٣ تھا جو میلان مالپینسا اٹلی کی طرف ہواؤں کو چیرتا پھلانگتا اپنی منزل کی طرف رواں دھواں تھا .مسافر پہلے ہلکا پھلکا جوس وغیرہ بھی پی چکے تھے  اور اب کچھ کھانا کھا چکے تھے کچھ تناول فرما رہے تھے .اور میری بیگم صاحبہ جو تین سال سے برین ٹیومر کے آپریشن سے مستفید ہو چکی ہیں جن کی وجہ سے مجھے یہ سفر کرنا پڑھا تھا .وہ ان لوگوں پر تبصرہ فرما رہی تھیں .مجھ سے کہ رہی تھی کہ فلاں شراب پی رہا ہے فلاں یہ کر رہا ہے فلاں وہ کر رہا ہے .اور میں کہ رہا تھا تم آرام کرو تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے .ساڑھے ٦ گھنٹے کی فلایٹ سے ابھی تین گھنٹے باقی تھے .اب کچھ لوگ سو  چکے تھے کچھ اپنی پسند کی فلمیں دیکھ رہے تھے کچھ ذکر اذکار کر رہے تھے .بچے کارٹون دیکھ رہے تھے .میری بیوی خراٹے لے رہی تھی .کہ اچانک جہاز میں چیخ کی آواز آئی کہ مجھے پکڑو .اس کے بعد  آواز بند مگر نہ سمجھ  آنے  والی سسکیاں جاری تھیں.جہاز کے تمام مسافر میری طرف متوجہ ہو چکے تھے .کیونکہ میری بیگم صاحبہ کو فالج کا حملہ ہو چکا تھا ..رایٹ سایڈ اور بازو کی حرکت بند ہو چکی تھی .دو پاکستانی فیملی میری بیوی کو مالش کر رہے تھے .کوئی ہاتھ کی کوئی پاؤں کی کوئی بازو کی .کچھ دیر بیگم صاحبہ خود بھی لیفٹ بازو سے رایٹ بازو سے کشتی اور جنگ لڑتی رہی .مگر آخر کار تھک ہار کر بے سد ہو چکی تھی .اور میں جہاز کے عملے کو ٹرانسلیشن سے تفصیل بتا چکا تھا اور عملے سے متفق تھا کہ انٹرنیشنل کال سے میلان اٹلی ائیرپورٹ کو اطلاح دے دی جاۓ .دوسرے ہی لمحے جہاز میں اعلان کر دیا گیا کہ مسافر اپنی اپنی سیٹوں پر تشریف رکھیں اور جہاز میں اگر کوئی ڈاکٹر ہے تو وہ اپنی خدمات پیش کرے .یہ اچھا ہوا میر ے لئے کہ ڈاکٹر اٹالین مل گیا جس کو میں آسانی سے سمجھا چکا تھا .اور کپتان سے فسٹ ایڈ بکس حاصل کرنے کے بعد اعلاج سٹارٹ ہو چکا تھا .اور میں سب سفر نامہ بھول چکا تھا ..جونہی ہم میلان مالپینسا اٹلی کے ائیرپورٹ  پر پنچے .جہاز نے ٹائر زمین کو لگاۓ.تو مکمل خاموشی تھی .جبکہ یورپ کے لوگوں کا اسٹایل ہے کہ وہ تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں جب جہاز ائیرپورٹ پر لینڈ کرتا ہے .مگر آج سب کچھ مختلف تھا .ہر کوئی پریشان تھا .کپتان نے اعلان کیا کہ مریض کے لئے وہیل چیئر سٹریچر ایمبولینس تیار ہے .اس لئے کوئی اپنی سیٹ سے  نہ اٹھے .جہاز کا ایمرجنسی دروازہ کھولا گیا .اٹلی ہسپتال کا عملہ اندر آیا .مریض کو وہیل چیئر پر ڈالا اور مجھے ساتھ لے کر چل دئے.ہم سیدھے ائیرپورٹ کے اندر والی ڈسپنسری میں پنچ چکے تھے .وہاں سب سے پہلے گلوکوز کی بوتل لگا دی گئی..ڈاکٹر اپنی کاروائی میں مصروف ہو چکے تھے کہ مریض کو کس ہسپتال منتقل کیا جاۓ .جبکہ اخلاقی طور پر انسانی حقوق کی بنیادوں پر امیگریشن پولیس کا ایک آدمی وہاں  ہمارے  پاسپورٹوں پر ایگزٹ سٹیمپ لگانے کے لئے تیار کھڑا تھا . پولیس والے نے مزید اخلاق کا مظا ھرہ یہ کیا کہ اس نے  کہا اپنے ہینڈ بیگ یہاں رکھو اور دوسرے  تین بیگ جو تم نے بک کرواۓتھے وہ وصول کر لو .جب ہم وہاں پنچے تو وہاں نہ کوئی مسافر تھا نہ کوئی سامان .آخر کار پولیس والے نے بڑی تگ و دو کے بعد سیکورٹی والی لڑکی سے ملکر بیگ تلاش کئے.مگر  ایک ضروری فون کال کی وجہ سے وہ چلا گیا اور مجھے لڑکی کے سپرد کر گیا .اور پھر جو کچھ ہوا یا ہو رہا ہے ..کل انشااللہ لکھوں گا ...جاوید اقبال چیمہ .میلان .اٹلی ..٠٠٣٩٣٨٩٦١٠٧٨١١ 

Saturday, September 12, 2015

=====جنرل راحیل شریف تیری جرات کو سلام ==
====میری آنکھوں میں آنسوں ہیں .دل کی دھڑکن تیز ہے .بچوں کی طرح روے جا رہا ہوں .اپنے غم کو پریشانی کو کم کرنے کے لئے پاکستان کی محبت سے سرشار دل کو سکوں دینے کے لئے آنسوؤں کو روکنا نہیں چاہتا .تاکہ جلد از جلد روح کی تسکین میں اضافہ ہو اور دل کا درد تمہارے سامنے کھول کر بیان کر دوں .ان آنسوؤں کے موتیوں کی جو مالا جپ رہا تھا آخر کیوں .تو کچھ سکون ملا ہے تو سن لی جئے.اتنی ساری خوشیاں اور غم اکھٹے  ملے کہ بیان سے باہر .خوشی یہ تھی کہ کہ سوچا کرتا تھا کہ کونسا وقت آے گا اور کون مائی کا لال آے گا .جو پاکستان کی سالمیت سے کھیلنے والوں کے لئے ایک چیلنج بنے گا .ٹارگٹ کللر.بھتہ خور .دہشت گردوں .کرپٹ لوگوں کے گرد گھیرا تنگ کرے گا .ان کا جینا حرام کرے گا .ان کو ایکسپوز کرے گا .ان کو بے نقاب کرے گا .اور خاص کر الطاف حسین اور متحدہ کو ایکسپوز کرے گا .کون اس ڈر خوف کے بت کو توڑے گا .آخر آج میں نے اپنی زندگی میں یہ دن دیکھ ہی لیا .جس کی خواہش بڑے عرصے سے تھی .گو کہ میں ایک باغی شخص ہوں بغاوت میرا پیشہ ہے .اس فرسودہ نظام کا باغی ہوں .چوروں لٹیروں غداروں کو ہر چوراہے  پر الٹا لٹکا دیکھنے کی خواہش رکھتا ہوں .چلو ساری خواہشیں تو پوری نہیں ہوئیں .مگر جو پوری ہو چکی ہے اس پر خدا کا شکریہ ادا کیوں نہ کروں.کیوں ناشکری کروں .کچھ تو ہوا جس پر خوشی کے آنسو اللہ کی رضا کے لئے پاکستان کی سالمیت کے لئے اپنے بہادر سپاہیوں کے لئے بہاۓ ہیں یا خود بخود آنسو کے قطرے اگر نکلے ہیں تو یہ میرے مولا اور پیارے نبی کا خاص کرم ہے ..اپنے لئے تو ہر کوئی آنسو بھاتا ہے .مزہ تو تب ہے جب کسی اور کے دکھ درد میں آنسو کا قطرہ نکلے . تو غم کیا تھا وہ کہانی سن لیں .چند دنوں سے فوج کے بارے میں فوجی نوجوانوں کے بارے میں رینجر کے کرنل صاحب کے بارے میں میجر جنرل بلال اکبر کے بارے میں جناب جنرل آصف باجوہ صاحب کے بارے میں اور جناب راحیل شریف صاحب کے بارے میں لکھ رہا تھا .رینجر اور فوجی جوانوں کی قربانیوں کو سراہ رہا تھا .مگر دکھ اس بات پر ہوا کہ میرے دوستوں نے اتنی میل بھیج دی .یہ لکھ کر کہ تم اعجاز چودھری اور طلعت اور دوسرے بکنے والے اینکروں کالم نگاروں کی طرح بک چکے ہو .اور پیڈ قصیدہ خان بن چکے ہو .تو آنکھوں میں بےاختیار آنسو چل نکلے .میرے دوستوں کو میری کتابیں بھول گئیں.کالم بھول گئے .جو ایوب خان .جنرل یحییٰ خان .جنرل رانی .جنرل ضیاء اور مشرف زرداری اور الطاف کی مکاریوں کے خلاف لکھ تھے .بھول چکے ہو جو کچھ حسین حقانی .عاصمہ جہانگیر اور غداروں کے خلاف لکھ تھے .بھول چکے میرے دوست مجھے جو میں ہر وقت حکمران کو وقت کا فرعون لکھتا ہوں اور ہر وقت بیچاری عوام اور قوم کو ڈیفنڈ کرتا ہوں .بھول چکے ہو دوست روزنامہ پاکستان کا قصہ میں نے ہی لکھا تھا .اکبر علی بھٹی کی ہیروئین کا قصہ میں نے ہی لکھا تھا .نواز شریف .جونیجو کے جہاز کا قصہ میں نے ہی لکھا تھا .جنرل یحییٰ اور جنرل رانی کی کہانیاں میں نے ہی لکھی تھیں .وہ چکلے چلانے والی جنرل رانی حکمرانوں کو عورتیں سپلائی کیا کرتی تھی .آج بھی بڑے بڑے سیاستدان اور بیوروکریٹ کو رانی کی یاد بھی ستاتی ہے اور کچھ آج بھی بڑے لوگوں کے گھروں میں بیٹھ کر قوم کے راز افشا کرتی ہیں .جنرل یحییٰ ایک عیاش شرابی شخص تھا .زرداری نواز شریف سے زیادہ نقصان اس ملک کو یحییٰ .ضیاء اور مشرف نے پنچایا ہے .ضیاء نے الطاف کی غداری والا پودا لگایا اور مشرف نے صرف آبیاری ہی نہیں کی .بلکہ مکتی باہنی کا تناور درخت بنانے میں اپنا مکروہ کردار ادا کیا .ہم کو دہشت گردی کی آگ میں مشرف نے جھونکا .جس کو بجھانے کے لئے جنرل شریف اگر کوئی نامور کردار ادا کر رہا ہے .تو پھر میرے لکھنے پر اعتراض کیوں .جو اچھا کرے اس کو اچھا نہ کہنا بھوت بڑا جرم ہے .میرے نزدیک بغض حسد کمینہ پن ہے .کہ میں جنرل راحیل شریف اور اس کی پوری ٹیم کو سلام پیش نہ کروں..جنرل راحیل شریف کے خاندان کی قربانیوں کو بھول جاؤں .یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا .جو کام  ٦٥ سالوں سے کوئی نہ کر سکا .اور اگر وہ کر رہا ہے تو میں اس جرنیل کو سلام پیش نہ کروں .یہ میری قوم کی توہین ہے اور میں یہ برداشت نہیں کر سکتا .چاہے میری جان چلی جاۓ .جو شخص دہشت گردوں .کرپٹ لوگوں .غداروں اور ہندوستان کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کر رہا ہے .میں اس شخص کو سلام پیش نہ کروں.یہ نہیں ہو سکتا .میں اس جرنل کے قصیدے بھی لکھوں گا جو حق سچ  پر مبنی ہوں گے .انشااللہ جب تک میری جان میں جان ہے .سانس چل رہی ہے .اس وقت تک اپنی سچائی کا کردار ادا کرتا رہوں گا .ہاں ایک بات میں اپنے دوستوں کی خدمت میں ضرور عرض کر دوں .کہ اگر میں بکا ہوں .لفافہ وصول کیا ہے یا کسی نے مجھ کو خریدا ہے .تو مجھ پر بغاوت کا مقدمہ چلنا چاہئے .ساری زندگی جیل میں جانے کو تیار ہوں .یا پارلیمنٹ کے سامنے مجھے پھانسی بھی قبول ہے .میں تو سیدھی بات کرتا ہوں .آپ نے اگر اس ملک کو بچانا ہے تو کرپشن کا خاتمہ کرنا ہو گا .کرپٹ لوگوں .چوروں .لٹیروں .کا احتساب کرنا ہو گا .سخت فیصلے کرنے ہوں گے .اس آپریشن کو اپنے منتقی انجام  تک پنچانا ہو گا .جنرل راحیل شریف کو مزید تین سال کی اکسٹنشن دینا ہو گی .اگر کیانی صاحب کو تین سال مزید دئے گہے تھے تو راحیل شریف کو کیوں نہیں .اس میں کوئی شک نہیں .بلکہ میرا ایمان ہے .کہ اس پاکستان نے دنیا کے نقشے پر قیامت تک رہنا ہے .اللہ نے اس دھرتی سے کوئی کام لینا ہے .یہ اسلام کا قلعہ ہے .مگر عالمی سازشیں اور بھارت اپنی مکتی باہنی کے زریعہ اس ملک کو کمزور کرنا چاہتیں ہیں معاشی طور پر مذھبی طور پر .آخر کسی پاکستانی حکمران .لیڈر یا جرنیل نے تو اپنا کردار ادا کرنا ہے پاکستان کی سالمیت کو بچانے کے لئے .تو اگر اللہ اور میرا پیارا رسول یہ کام جنرل راحیل شریف سے لے رہا ہے .تو پوری قوم کا فرض ہے کہ جو شخص یا ادارہ اس ملک کا گند صاف کر رہا ہے .اس ملک کا امن واپس لا رہا ہے اس کو سراہے اس کی مدد کرے .ہم سب کو اس ملک کی بقا کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کرے . اچھی  قوموں کا یہی وطیرہ  ہوتا ہے .اگر میرے نبی کی مدد  ابوبکر صدیق .عمر فاروق .عثمان غنی .حضرت علی اور دوسرے صحابہ کرام نہ کرتے .تو اسلام پوری دنیا میں کیسے پھیلتا .اور آج ہم کس منہ سے فخر سے اپنے آپ کو مسلمان کہتے .اللہ نے جس سے کام لینا ہوتا ہے لے لیتا ہے .تو میرے خیال میں اللہ نے جنرل راحیل شریف کو جس کام کے لئے چن لیا ہے .وہ اس سے اپنا کام ضرور لے گا .چاہے میں راحیل شریف سے حسد کروں یا بغض رکھوں .میں جو دیکھتا ہوں ووہی لکھتا ہوں .میں یہ دیکھ رہا ہوں .نندی پور پراجیکٹ بند ہو چکا ہے .سٹیل مل بند ہونے والی ہے .پی.آئی .اے .بربادی کے کنارے پر ہے .وزارت پٹرولیم وزارت بجلی فلاپ ہو چکی ہے .کاپر تامبا لوہا سونے کے زخائر بد حالی کا شکار ہیں .پنجاب میں مگر مچھوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جا رہا .میاں نواز شریف با امر مجبوری راحیل شریف کا ساتھ دے رہا ہے .جمہوریت ناکام ہو چکی ہے فلاپ ہو چکی ہے ڈلیور نہیں کر سکی .نیشنل ایکشن پلان پر ابھی آدھا بھی کام نہیں ہوا ..مگر اس کے باوجود جنرل راحیل شریف لولی لنگڑی جمہوریت کی رسی مضبوطی سے تھام کر آہستہ آہستہ چل رہا ہے .اور بھوت کچھ نا چاہتے ہووے بھی برداشت کر رہا ہے .یہ سارے کریڈٹ جنرل راحیل شریف کو جاتے ہیں .آخری بات دوستو یاد رکھو اگر میرا خدا نواز شریف اور راحیل شریف کو عزت سے نوازنہ چاہتا ہے .تو ساری دنیا کے دشمن مل کر بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے .اللہ اس ملک کو دیانت دار حکمران عطا کرے .ملک کی حفاظت فرماے .تا قیامت اس کو آباد رکھے .پاکستان زندہ باد.پایندہ باد ..جاوید اقبال چیمہ .اٹلی والا ..٠٠٩٢٣٠٢٦٢٣٤٧٨٨ 

Wednesday, September 9, 2015

======جنرل راحیل شریف کے نام =========
=====تو شاہین  اقبال  پیغام نوجوان  ہے  تو
=====کرتا ہوں ناز کہ فخرے پاکستان ہے تو
=====دوستوں  کے  دل  کی  دھڑکن  ہے تو
=====دشمن  کے  لئے  ایک  چٹان  ہے  تو
===== حاکموں  نے تو کر دیا تھا سودا میرا
=====لکھوں گا جو حقیقت وہ عنوان  ہے  تو
=====میری  پہنچ  تو  صرف آنسوؤں تک ہے
=====میری بے بسی بے حسی کا امتحان ہے تو
=====کیسے کب کون بدلے گا نظام  فرسودہ
=====میرے لئے اک سوالیہ نشان ہے  تو
=====حق اور سچ کا بول بالا جو کرتے ہیں
=====ان شعلہ نواؤں کی  پہچان  ہے  تو
===== دشمن دہشت گردوں کا مقابلہ جو کرے
=====خالد بن ولید جیسا شیر دل نگران ہے تو
=====دشمن تو کھینچ رہا ہے لہو سے لکیریں میری
=====تاریخ کا محمد بن قاسم ٹیپو سلطان ہے تو
=====چوروں لٹیروں سے بھی واقف ہے راحیل
=====ہر کرپشن کے بھی جانتا نشان  ہے تو
=====اللہ اور نبی پے رکھ کے  بھروسہ راحیل
=====بدل دے نظام کہ نیا قاعد نیا پاکستان ہے تو
=====قاعد اعظم  تو  قاعد اعظم  تھا  جاوید
=====راحیل میرے خواب انقلاب کا نگہبان ہے تو
=======جاوید اقبال چیمہ اٹلی والا
=======٠٠٩٢٣٠٢٦٢٣٤٧٨٨ 

Wednesday, September 2, 2015

=تشویش .مذمت .سیاسی انتقامی کاروائی .مفاہمت جمہوریت کے بونوں کے یہ الفاظ مجھے زہر لگتے ہیں .جس نے کرپشن کرنی ہو .ملک سے غداری کرنی ہو .پیسہ کمانا ہو .دوبئی لندن امریکا میں محل بنانے ہوں .تو وہ سیاست میں آ جاۓ .یا سیاسی گماشتوں کی چمچہ گیری کرے تو سیاستدان کا سیکٹری بن جاۓ اور خوب مال کماۓ.یا بیوروکریسی کی طرح ہر آنے والے سیاستدان  کی تیمارداری کرے اس کو مکڑی کا جال میں رکھے اور سیاستدانوں کو تندور روٹی اور جنگلہ بس .ناظم .کونسلر .کبھی جماتی اور کبھی غیر جماتی الیکشن کے چکروں میں ڈالے رکھے.اور خود صاحب کی آنکھ کا تارا دل کا دولارا بن کر عیش کرے اور کبھی اپنی  بیوی کو صاحب سے متعارف کروا دے اور خود عیش بھی کرے اور اپنے حلقہ میں اپنی کرسی پر مشہور ہو جاۓ کہ صاحب فلاں فلاں افسر کی بات نہیں ٹالتا .بیوروکریسی ایسی بلا کا نام ہے جو آمریت میں بھی خوش جمہوریت میں بھی خوش .خدا غارت کرے ایسی جمہوریت کو کہ جس میں فیصلے آمریت والے ہوں .خدا غارت کرے ایسی جمہوریت کو کہ جس میں ڈکٹیٹر کے ساتھی ہوں .جس جمہوریت کو ڈکٹیٹر کی پیداوار چلا رہے ہوں اس جمہوریت پر ہزار بار نہیں کروڑوں دفعہ لعنت .لعنت .لعنت .جس جمہوریت میں سارے مامے چاچے وزیر مشیر ہوں .اداروں کے سربراہ ہوں .اس جمہوریت میں کرپشن پر کنٹرول نہیں ہو سکتا .نہ احتساب ہو سکتا ہے .نہ انصاف .ہم جو سمجھ رہے ہیں کہ یہ سب کرپشن والے کرپٹ لوگ پکڑے جایں گے .تو ہم سب کسی اور ہی دنیا میں رہتے ہیں .پاکستان میں جو پانچ پرسنٹ کرپٹ مچھلیوں کی پکڑ دھکڑ ہوئی ہے .یہ صرف اور صرف راحیل شریف کو کریڈٹ جاتا ہے .اور جس دن یہ کاروائی پنجاب تک نہ پنچھی .نواز شریف کے خاندان تک نہ پونچی.یا یہ آپریشن دہشت گردی والا کرپشن والا بھتہ خوری والا ٹارگٹ کلنگ والا اپنے منتقی انجام تک نہ پنچا.تو میں اس کا ڈیسکریڈیٹ بھی راحیل شریف کو ہی دوں گا .اس وقت قوم  اپنے سارے مسایل بھول چکی ہے .ہر فرد ہر شخص کی نظریں راحیل شریف پر لگی ہوئی ہیں .کہ کب وہ بڑی مچھلیوں مگر مچھوں کو پکڑتا ہے .قوم کو حکمران کی طرح کوئی فکر نہیں کہ بھارت پاکستان کے امن کو تباہ و برباد کر رہا ہے .جنگ کے بادل ہمارے اوپر چھائے ہووے ہیں .ہمارے پاس ١٥ دن کی جنگ لڑنے کے لئے پیٹرول کا سٹاک بھی نہیں ہے .دوسرے زخائر بھی کم ہیں .راشن وغیرہ .اور باڈر تک پونچھنے والی سڑکیں بھی تباہ ہالی کا شکار ہیں .ہر شہر کو ٹریفک کے مسایل ہیں .کیونکہ ساری رقم ہم صرف لاہور پر خرچ کرنا چاہتے ہیں .پاکستانی قوم کو بچے بچے کو بس ایک ہی فکر لا حق ہے .کہ زرداری اور شریف خاندان کب احتساب کی چکی یا شکنجے میں آتے ہیں .جبکہ رانا سناالله نجومی ولی اللہ نے پشین گوئی کر دی ہے کہ پنجاب میں کراچی کی طرح کوئی کاروائی نہیں ہو گی .بتاؤ میرے پاکستانیو میں اس بیان پر تشویش کا اظہار کروں یا مذمت کروں یا سندھ میں انتقامی کاروائی لکھوں .پنجاب میں کیوں نہیں .بلکہ میرے خیال میں فوری کاروائی ہونی چاہئے .تاکہ سیاسی پنڈتوں کو مداری گروں مکاروں کو شور مچانے کے لئے کوئی جواز میسر نہ آے.اور ہمارے سینے میں بھی ٹھنڈ پڑ جاۓ .کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ میری اور میری قوم کی یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہوتی ہیں .جس سے ہم اپنے دل کو بھلا لیتے ہیں .کہ آج فلاں سکینڈل آ گیا آج فلاں کے گرد گھیرا تنگ ہو گیا .ہم کو اس رات نیند پیاری آ جاتی ہے .جبکہ ہم کو معلوم ہے اور ہوتا ہے کہ ہونا وغیرہ کچھ نہیں .بس چند دن شور رہنا ہے .کیونکہ یہ ہماری بھی غذا ہے .اور ہماری غذا کا بندوبست ہمارے ادارے ہمارے لئے کرتے رہتے ہیں .یہی ہماری اوقات ہے .کہ ایس.ایس.پی.ہم کو چاۓ پر بلاۓ اور ہمارے سامنے میز پر چند کلاشنکوف اور پستول گولیاں اور چار ڈاکو دکھاۓ .فوٹو سیشن ہو اور سب گھروں کو چلے جایں یہ سمجھ کر کہ اب  چوریوں ڈکیتیوں کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو چکا ہے .کسی چور لٹیرے ڈاکو یا کرپشن کے بادشاہ کو پکڑنے سے مسایل حل نہیں ہوں گے .کرپشن مافیا کا قله قمعہ نہیں ہو گا جب تک ان لوگوں کو فوری انصاف کے تحت عبرت کا سامان نہیں بنایا جاتا .عبرت کا نمونہ بنا کر کسی چوراہے میں الٹا لٹکا کر عوام کو دکھایا جاۓ کہ ہم کرپشن کو روکنے میں مخلص ہیں .ورنہ یہ ڈرامے ہم تشویش .مذمت اور سیاسی انتقامی کاروائی کے الفاظوں سے تنگ آ چکے ہیں .بس کریں یا ملک کے چپے چپے کی حفاظت کریں یا سب کے لئے فری سٹیٹ بنا دین .جس کی جو مرضی کرے وہ کرنے میں آزاد ہو .تا کہ سب کو یکساں ملک کو لوٹنے کا موقعہ مل سکے .پھر جو ہو گا تم بھی دیکھو گے ہم بھی دیکھیں گے .اس سے پہلے کہ عوام جاگ جاۓ میرے حکمران تم جاگ جاؤ...جاوید اقبال چیمہ ..اٹلی والا ..

Tuesday, September 1, 2015

===مارشل لا =مارشل لا =مارشل لا =مارشل لا ==
===لکھنا تو مودی اور بھارت کی جارحیت پر چاہتا تھا .لکھنا تو بھارت کے جنگی جنون .بھارت کی دہشت گردی .را کی پاکستان میں مداخلت پر چاہتا تھا .لکھنا تو انڈیا کے اجینٹوں کے بارے میں چاہتا تھا .مودی کی للکار اور نواز شریف کی تشویش پر لکھنا چاہتا تھا .لکھنا تو انڈیا کی بڑھکوں اور پاکستان کی خاموشی پر چاہتا تھا .مگر کیا کروں ہماری اندر کی کرپشن کی کہانیاں ہی اتنی ہیں .زرداری اور الطاف کے بیانات ہی اتنے سنگدل .خوفناک اور خطر ناک ہیں .کہ یہ سوچنے کا موقعہ ہی نہیں ملتا کہ عوام کدھر ہیں قوم کدھر ہے .قوم کی سوچ کدھر کھڑی ہے .قوم کے مسایل کیا ہیں .کہ مودی متحدہ عرب امارات میں کیا گل کھیلا رہا ہے .اور عرب جو مسلمان کہلواتے ہیں وہ کیا گل کھیلا رہے ہیں .ہم کدھر ہیں ہمارے حکمران ہماری خارجہ پالیسی ہمارے ہاں شکار کھیلنے والے دوست کدھر کھڑے ہیں .سعودی عرب کی ائیرپورٹ پر انڈیا کے جنگی جہاز کیوں اتارے گہے  ہیں .وہ کس کی مدد کرنے گہے ہیں .کیا سعودی عرب کے دوست بھائی تبدیل ہو چکے ہیں .یا ہم پر اعتبار ختم ہو چکا ہے .یا عالمی آجنڈہ کیا ہے سازش کے نئی چال کیا ہے .یا ہماری خارجہ پالیسی داخلہ پالیسی صرف اقتدار کے گرد گومتی ہے یا میرے حکمرانوں کو اقتدار کے چکروں سے فرصت ہی نہیں .زرداری کا بیان نواز شریف کی حکومت کے خلاف آتا ہے تو نثار .شہباز .نواز .مل کر غور کرتے ہیں .عوام یا اپوزیشن کوئی بات کرتی ہے تو کانوں پر جوں نہیں رینگتی .آخر یہ سب کیا ہے .اور ہم کو یعنی لکھنے والوں کو اس بات سے فرصت نہیں کہ قصور حکمران کا ہے کہ عوام کا .بھائی اگر اسی الفاظ پر جھنم اور جنت کا فیصلہ کرنا ہے .کہ جیسی عوام ویسا حکمران .تو قیامت کا انتظار کر لو .مت لکھو مت تقریریں کرو مت جد و جہد کرو .مت قاعد اعظم اور اقبال کو علم دین شہید کو اور دوسرے لاکھوں شہدا کو خراج تحسین پیش کرو .برطانیہ جو کر رہا تھا کرنے دیتے کیوں پاکستان کے لئے خون پیش کیا .آجکل کا حکمران جو کر رہا ہے کرنے دو .کیوں شور مچاتے ہو .کیوں کرپشن پر واویلا کرتے ہو .کیوں چوروں ڈاکوووں کو پکڑنے کی بات کرتے ہو .رہنے دو سب کو موج کرنے دو .زمینیں الاٹ کرنے دو کروانے دو پلازے بنانے دو .منی لانڈرنگ کرنے دو .فری سٹیٹ گیسٹ ہاوس بناؤ ملک کو .جب عوام کا ہی قصور ہے تو بند کرو یہ فضول کے نیپ کے قصہ کہانیاں .ہم ٦٥ سال سے سن سن کر سن ہو چکے ہیں .ماوف ہو چکے ہیں .مارو ان غریبوں کو ختم کرو عوام کو قوم کو .رہنے دو زندہ چند خاندانوں کو .موج مستی کریں .سنیاں ہو جان گلیاں جناں وچ رانجھا یار پھرے =مر جان ساڈے وانگوں دے کتے جیڑھے روز بھونکتے نیں==تو بہتر ہے نہ رہے بانس نہ بجے بانسری .نہ عوام ہوں گے نہ الزام تراشی .کھلیان سڑکاں تے کھلے میدان ..پروٹوکول ہی پروٹوکول .نہ زرداری نہ نواز شریف کے خاندان کو خطرہ .نہ انتقامی کاروائی نہ مفاہمت نہ منافقت کا خطرہ .ڈگریاں بھی اپنی .یونیورسٹیاں بھی اپنی .انصاف بھی اپنا جج بھی اپنا عدالت بھی اپنی .فرعون کا زمانہ بہتر تھا .جب نہ کوئی میڈیا گروپ ہوتا تھا .نہ فرعون سے حصہ بھتہ وصول کرنے والا ہوتا تھا .سب شانتی ہی شانتی تھی .پھر عوام کو لیڈ کرنے کے لئے اللہ نے موسیٰ کو بیجھ دیا .اور اگر اب جنرل راحیل شریف مارشل لا کی طرف سے آ جاۓ .تو عتراض کس بات پر .یا خود احتساب کرو یا کسی کو کرنے دو .عوام کو کیوں ذلیل کر رہے ہو .عوام کو طعنہ دیا جاتا ہے .کہ عوام نے غلط لوگوں کو منتخب کر کے پارلیمنٹ جیسے کعبہ میں حکمرانوں کو بیجھ دیا .میرے مارشل لا مجھ سے یہ تمغہ حسن ے کارکردگی واپس لے لے .میرا کوئی قصور نہیں .میں نے تو ان کو منتخب کر کے نہیں بیجھا تھا .یہ ان دیکھی قوتوں کا کمال تھا .اگر یقین نہیں تو ١٢ گھنٹے کے لئے نجم سیٹھی اور ریاض کیانی کو تفتیش کے لئے میرے حوالے کر دو .قوم کو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دوں گا .سب قوم کو بتا دوں گا کس کے کہنے پر کس کس نے کیا دھاندلی کی .سپریم کورٹ کا فیصلہ تو نظریہ ضرورت کا اور ڈنڈی مار فیصلہ تھا .جو تعصب کی فلمی کہانی سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھا .عوام کا قصور کہنے والو .مجھے بتا دو کہ یہ بھی عوام کا قصور ہے کہ الیکشن کمیشن کے لوگ عزت سے گھر جانا پسند نہیں کرتے .کیا حکمران ان کو گھر نہیں بیجھ سکتا .اگر بیجھ سکتا ہے .تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے .کہ حکمران ایسا کیوں نہیں کر رہا .تو عوام نکلیں خون بھایں.تو پھر یہ گھر جایں گے .تو اگر ہر بات کو منوانے کے لئے احتجاج ضروری ہے .رونا دھونا ضروری ہے .مارپیٹ گولے شیلنگ ضروری ہے .تو پھر سارے فیصلے مارشل لا ہی کیوں نہ کرے .اگر آپ ڈلیور نہیں کر سکتے .نہ انڈیا کے خلاف زبان کھولتے ہو نہ انڈیا کے ساتھ تجارت بند کرتے ہو .نہ چوروں کا احتساب کرتے ہو .تو پھر مارشل لا جنرل راحیل شریف ہمارے لئے قابل قبول ہے .اگر حکمران کو جمہوریت پیاری ہے تو پھر کرپٹ لوگوں کو دفاح نہ کرے .کاروائی کرے اور لوٹا ہوا مال واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کرے .کشکول کو توڑے .اپنے اقتدار کے مفادات کو بلاۓ طاق رکھ بلا تفریق کاروائی کرے .ایک دفعہ سارا گند جمہوریت خود صاف کر لے یا مارشل لا جنرل راحیل شریف کو کرنے دے .روڑھے مت لٹکاؤ ..آزادی سے سب اداروں کو آزادی سے کام کرنے دو .تا کہ عوام اپنے اپنے ہیرو تلاش کرنے کی کوشش نہ کرے .نہ عوام کو موقعہ دو کہ وہ کسی عمر فاروق .خالد بن ولید .طارق بن زیاد.ھارون رشید یا کسی موسیٰ کے آنے کی دعا کرے ...جاوید اقبال چیمہ ..اٹلی والا ..٠٠٩٢٣٠٢٦٢٣٤٧٨٨ 
=====زرداری صاحب کا بہترین سوال ======
=====مبارک ہو پوری قوم کو .مبارک ہو پاکستان کو .مبارک ہو عوام کو اور عوام کے ان دوستوں کو جو ہر روز یہ ثابت کرنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں سارا قصور عوام کا ہے .حکمرانوں کا کوئی قصور نہیں ہے .شاباش میرے دوستو ..بار بار یہی الفاظ لکھو اور دہراؤ کہ جیسی عوام ویسے حکمران ..گو کہ میں ان الفاظوں کو اسلامی نقطۂ نظر سے جھٹلانا نہیں چاہتا .یہ بحث لمبھی ہو جاۓ گی .مگر بار بار یہی کہتا ہوں کہ وہ الیکشن بتاؤ جہاں عوام کا مینڈیٹ چرایا نہ گیا ہو .جہاں شب خون نہ مرا گیا ہو .جہاں عالمی سازش کے تحت اپنی مرضی کے حکمرانوں کو تخت و تاج نہ سونپا گیا ہو .پھر ماضی میں جھانک لو .قومی اتحاد کس نے بنایا .بھٹو کے خلاف سازش کس کس نے کی .بنگلہ دیش کس طرح بنا .جنرل یحییٰ کون تھا .اس کے فیصلے ساز کون تھے .کیا عوام تھے .ایوب خان نے رات ١٢ بجے تک حک اینڈ کرک .تمام بی.ڈی.ممبر خریدے .فاطمہ جناح کو ہرایا .اسحاق خان کون تھا .جس نے دو دفعہ عوامی حکومت کو گھر بیجھا.کیا عوام سے پوچھ کر کیا .زرداری نے بینظیر کو مروایا کیا عوام کا قصور تھا .مشرف اور ضیاء نے سیاستدانوں کا احتساب نہ کیا .کیا عوام کا قصور تھا .ضیاء نے اپنی مرضی سے شریف خاندان کو نوازہ کیا عوام کا قصور تھا .عوام کو کس جگہ پوچھا گیا.کیا سارے ریفرنڈم عوامی تھے یا سیاسی .کیا مشرف نے زرداری کو پروموٹ کیا عوام سے پوچھا .کیا .این .آر .او ..عوامی فیصلہ تھا .کیا زرداری کے ساتھ .این آر .او .عوام سے پوچھ کر کیا گیا تھا .کیا کرپشن عوام نے کی .کیا خارجہ پالیسی میں ناکامی داخلی پالیسی میں ناکامی عوام کا قصور ہے .کیا کراچی کو دہشت گردوں کے حوالے بھتہ خوروں کے حوالے ٹارگٹ کلنگ کے حوالے مشرف نے کیا یا عوام نے .کیا کالا باغ ڈیم نہ بنانے میں عوام کا قصور ہے .کیا بھارت کے ساتھ تجارت کرنا اور دوسرے معایدے کرنے میں حکمران ملوث تھا اور ہے .یا عوام .مودی کو جارحیت دہشت گردی پر جواب نہ دینا میرا قصور ہے یا حکمران کا .کیا امریکا کے ساتھ پینگیں مشرف .ضیاء .نواز شریف اور زرداری نے بڑھیں.یا میں نے .عوام کا کیا قصور ..ہاں عوام کا قصور بس اتنا ہے .کہ ظلم اور نا انصافی پر سڑکوں پر نہیں نکلے .خون نہیں بھایا انقلاب کے لئے .خونی انقلاب کی راہ ہموار نہیں کی .یہ عوام کا قصور ہے .کہ انارکی کی طرف نہیںں گہے.بجلی اور گیس کے بلوں کو نہیں جلایا .مگر اس میں بھی بیوروکریسی کا کمال کہ جس نے عوام کا کچومر نکال دیا مہنگائی اور بیروزگاری اور ظلم کی انتہا پر .ماڈل ٹاون کے واقعہ کو دیکھ لو .عوام سے کیا چاہتے ہو کہ عوام سڑکوں پر انصاف کے لئے نکلے تو آؤ لیڈ کرو کہ تم بھی عوام سے ہو .عوام کو کوئی لیڈر نہیں ملا کوئی قاعد عظم کوئی اقبال کوئی بھٹو نہیں ملا .باقی جو ملے وہ بےغیرت جمہوریت یا آمریت کے ٹھیکیدار ملے .صاف کھو کوئی انسان نہیں ملا کوئی مسلمان نہیں ملا کوئی محب وطن پاکستانی نہیں ملا .سب سیاسی مکار ملے .جھوٹے فریبی مکار دغاباز .کمینے .چور.ڈاکو .لٹیرے .کرپٹ .فرعون.نمرود .شداد ملے .جنرل اشفاق کیانی کو میں نے نہیں روکا تھا کہ تم وزیرستان میں آپریشن نہ کرو .سوات میں آپریشن اس لئے ہوا کہ دہشت گرد اسلام آباد کی پہاڑیوں تک پنچ چکے تھے .اور حکمران کے تخت کو بیوروکریسی کے تخت کو خطرہ ہو چکا تھا .اور یہ وہ نقطۂ ہے جو عوام کو سمجھنا چاہئے .کہ جب تک سیاسی اور سیاستدانوں کے چمچوں بیووکریٹ کو کوئی خطرہ نہ ہو یہ عوام کی بات آسان زبان میں نہیں سنتے اور نہ یہ عادی ہیں . اب غور کر لیں زرداری کی للکار پر .یہ سب سیاسدان عوام کو قوم کو پاکستانیوں کو بیوقوف سمجھتے ہیں .کون نہیں جانتا کہ شریف خاندان ہو چودھری خاندان ہو زرداری خاندان ہو جاگیردار وڈیرے ہوں یا پشاور کے سیف اللہ خاندان ہو یا بلور فیملی ہو یا فضل رحمان ڈیزل ہو .سب کے سب کرپشن میں نہا چکے ہیں نہا رہے ہیں .نہ ان کے ساتھ انصاف ہوا نہ ان کا احتساب .اب پہلی بار ابھی تھوڑا سا احتساب کا عمل شروح ہوا ہے .ایک دو مچھلی بےغیرت پکڑی گئی ہے .اور متحدہ اور زرداری کے پیٹ میں درد ہو چکا ہے .اب پنچاب میں بھی کچھ گندی مچھلیوں  کی باری آنے والی ہے .مگر چور ڈاکو کرپٹ قاتل منافق سب اکٹھے ہونے لگے ہیں .جمہوریت کو بچانے کے لئے .خطرہ حکمران کی جیب کو جب ہوتا ہے تو یہ بےغیرت کتے بھونکنا شروح کر دیتے ہیں جمہوریت کو خطرہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں .یہ سب بکواس ہے قوم کے ساتھ مذاق ہے .اگر کوئی جج انصاف کرتا ہے تو اس کو گھر بیجھ دیا جاتا ہے یا تبدیل کر دیا جاتا ہے .یہ حکمران انصاف کا رکھوالہ نہیں ہے .یہ سب سے بڑا انصاف کا قاتل ہے .ہم سب لکھاری بے سود آپس میں الجھ رہے ہیں .اس بے معینی بحث پر کہ قصور عوام کا ہے یا حکمران کا .تو آو مل کر عوام کو اکھٹھا کریں .مل کر کام کریں شعور اجاگر کریں .عوام کو اپنے حقوق کے لئے انصاف کے لئے حکمرانو کے خلاف کرپشن کے خلاف مل کر جد و جہد کریں .تا کہ تنگ آ کر عوام خونی انقلاب کی طرف نہ جایں.قوم کو کوئی سیاسی پارٹی اس وقت لیڈ نہیں کر رہی .قوم کو کوئی ریلیف نہیں دے رہا .ٹیکس کے معاملات دیکھ لیں .کسانوں اور دودھ والوں کی ہڑتال دیکھ لیں .کوئی پارٹی عوامی پارٹی نہیں ہے .ہم سب کو ایک عام آدمی عام لوگوں کی پارٹی بنانا ہو گی .ملکر پیسے ہووے طبقے کی رہنمائی کرنا ہو گی .حقیقی قوم کے مسایل کو اجاگر کرنا ہو گا .پاکستان کا سب سے بڑا مسلح کرپٹ حکمران ہیں .کرپشن ہے .زرداری اور شریف خاندان ہے .انصاف اور احتساب ہے .میں تو زرداری اور الطاف کی بک بک سے تنگ آ چکا ہوں .بہتر ہے ملک کی کمانڈ اینڈ کنٹرول جنرل راحیل شریف  صاحب سنبھال لیں .کیونکہ میں کمزور ہوں .قوم کو لیڈ نہیں کر سکتا .قوم کو جنرل راحیل شریف کی صورت میں لیڈر مل چکا ہے .اگرinsaf احتساب اب نہیں تو پھر کبھی نہیں .زرداری صاحب مجھے کوئی اعترض نہیں .آپ کھل کر میدان میں ایں.اور مرد بنیں .سیاسی منافقت سیاسی مفادات سیاسی مفاہمت اور سیاسی نکتہ چینی سے باہر نکلیں ..حقیقت کا سامنا کریں .کوئی سیاسی انتقام نہیں ہے .نہ شریف خاندان زرداری سے سیاسی انتقام لے سکتا ہے .وہ صرف غریبوں کے خلاف میرے جیسوں کے خلاف کروائی کرتے ہیں .زرداری کے ساتھ نہیں .کیونکہ ان کو اقتدار عزیز ہے ...اس ساری بک بک کا ایک ہی حل ہے قوم کو آخری مارشل لاء چاہئے جنرل راحیل شریف کی صورت میں .جو گند صاف کر سکتا ہے .اگر اب نہیں تو پھر کبھی نہیں .پاکستان ختم ہو نہ ہو مگر چپہ چپہ براۓ فروخت ہے .اور یہ حکمران مال کمانے کی خاطر سب کا سودہ کرنے کو تیار ہے .تم فیصلہ کرو قصور زرداری یا نواز شریف کا ہے یا عوام کا ..جاوید اقبال چیمہ .اٹلی والا ...٠٠٩٢٣٠٢٦٢٣٤٧٨٨