.....................
مکاری .جھوٹ میرے حکمران سے سیکھو ...............
............
لندن کی سیر و سپاھٹ کرنے کے بعد اور کچھ بلیک منی کو سفید کرنے کے بعد .کچھ اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے بعد کچھ اندر خانے پاکستان کی دولت کو لوٹ کر لندن لانے کے مزید گر سیکھنے اور سکھانے کے بعد قوم کے مزدوروں سے خطاب کیا کچھ ایسا ..کہ عقل دنگ رہ جاۓ ..بلکہ عقل کو تماشائیوں کی نظر کرتے ہووے میاں نواز شریف جو خلیفہ وقت نے فرمایا .وہ یہ تھا ..کہ ایک ایک پائی قوم کی امانت ہے ..اور جو ہم نے پاکستان کو لوٹا ہے یہ ہمارا حق تھا .کیونکہ ہم جو قرض لیتے ہیں .فیکٹریاں لگاتے ہیں اور پھر قرضے بھی معاف کروا لیتے ہیں اور اربوں .کھربوں کے سود بھی .تو یہ سب قوم کے مزدوروں کے لئے کرتے ہیں ..تاکہ مزدوروں کو روزگار ملے..ہمارے سب بنگلے .محل .کوٹھیاں کاریں .زمینیں .بلڈنگ .فیکٹریاں .قوم کی امانت ہیں .ہمارا اپنا کوئی پیسسا خون پسینہ اس میں شامل نہیں ہے ..سب قوم کا ہے ..یہ راز ہے دولت مند بننے کا ..کہ آپ بھی حکومت کے خزانے سے قرض لو .پھر معاف کرواؤ .اور عیاشی کرو ..اور میری طرح مالدار بن جاؤ..سیاست میں آؤ..سیاست مال بنانے کی مشین ہے ..پہلے پہلے تکلیف ہو گی .ضمانتیں بھی ضبط ہوں گی .میری بھی کونسلر کے الیکشن میں ضمانت ضبط ہوئی تھی ..مگر آپ حوصلہ نہ ہاریں .کسی نہ کسی ڈکٹیٹر کی نظر آپ پر چلی گئی.تو پھر وارے نیارے ہو جایں گے ..جس طرح ضیاء تک ہماری محبوب نظر پنچ گئی تھی ..پھر خود ہی دیکھ لو .کہ ہم کہاں پنچ چکے ہیں ..کوئی ماروی میمن .طارق عظیم .زاہد حامد .وغیرہ وغیرہ کو جانتا تھا ..بس یہ اوپر والے اور ڈکٹیٹر کی نظر کرم کا نتیجہ ہے .کہ آج میرا کاروبار پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے .ہر ملک میں ہمارے خوشامدی .مالشئے .اجنٹ..دولت کو سمیٹنے میں ہماری مدد کرتے ہیں اور ہم ان کو عھدے دیتے ہیں ..یہ علیحدہ بات ہے کہ ہمارے قول و فعل میں فرق ہوتا ہے اور لیڈر بننے کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے ..جس طرح عھدہ لینے کے لئے قصیدہ خان ہونا اور چمچہ گیر ہونا ضروری ہوتا ہے ..اسی لئے خادم اعلی فرماتے ہیں کہ امیر اور غریب کے فرق کو نہ بڑھنے دیا جاۓ ...اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس فرق کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جاۓ .ورنہ ہمارا خلافت کا کاروبار ٹھپ ہو جاۓ گا ..یہ قطاروں میں لگے ہووے لوگ ہم کو اچھے لگتے ہیں .جو ہماری ملاقات میں ترستے رہتے ہیں .اس لئے ہم ان کو زیادہ ملنا پسند نہیں کرتے کیونکہ پروٹوکول والے کہتے ہیں کہ غریب کے جراثیم سے دور رہنا ضروری ہوتا ہے ..کیونکہ یہ غریب ہماری پائی پائی کی امانت ہیں .اس لئے امانت کو چھونا پسند نہیں کرتے ...اگر ان کی تلاشی اور صفائی سے ہم مطمئن بھی ہو جایں .اور ملنے پر اسرار بھی کر دیں.تو پروٹوکول والے ہم کو ملاقات سے یہ کہ کر ڈرا دیتے ہیں .کہ غریبوں کی جیب تو خالی ہے کوئی ریوالور نہیں ہے مگر پاؤں میں ایک عدد جوتا ہے ..اور کیونکہ جوتا بھی قوم کی امانت ہے .اس لئے ملنے سے اجتناب کرتے ہیں کہ جوتا بھی قوم کی امانت ہے ..اور ہم کو قبر میں پائی پائی کا حساب دینا ہے ہمیں بتایا نہ جاۓ ہم لا علم اور غریبوں کی طرح جاہل اور معصوم نہیں ہیں ..ہم ملک میں ایسا روشنی کا انقلاب لا رہے ہیں کہ غریب کی آنکھیں چندیا جایں گی ...اگلی خوشخبری ہم قوم کو امریکا میں جا کر سنایں گے ..کیونکہ پاکستان میں رہنے والے ہماری باتوں پر غور نہیں کرتے وہ ہم کو جھوٹا .مکار .فریبی .چور.لٹیرا .ڈاکو .غدار اور بےغیرت.کہتے ہیں ..کیونکہ غریب .بھوکا .ہمیشہ سچ بولتا ہے اور کم ظرف ہوتا ہے .شعور سے بھی عاری ہوتا ہے ...لندن میں آ کر آپ سے دل کھول کر بات کر لیتا ہوں .کہ آپ کم از کم بھوکے نہیں ہیں .اس لئے آپ مجھ کو برداشت کر لیں گے ...پھر ملیں گے .کسی اور قسم کے جھوٹ .مکاری کے ساتھ ..جاوید اقبال چیمہ ..میلان ..اطالیہ..٠٠٣٩..٣٢٠..٣٣٧..٣٣٣٩...
No comments:
Post a Comment