====تجزیے .تبصرے .مشورے .اور حکمران ===
====حکمران کے لئے ہمارے تبصرے تجزیے مشورے سب کے سب بیکار ہے اور بیکار تصور ہوتے ہیں .جب تک کہ حکمرانوں کے درباری گندی ذہنیت رکھنے والے ہوں .ہماری باتیں حکمران کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتیں .ہاں اگر یہی باتیں ہمارے مشورے چرا کر درباری قصیدہ خوان حکمران کے سامنے پیش کرے تو درباری کی مانی بھی جاتی ہے قدر بھی ہوتی ہے اور حکمران کی نظر میں اس درباری کی قدرو منزلت میں بھی اضافہ بھی ہو جاتا ہے .اور کبھی کبھی تو یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اس کو حکمران عھدہ بھی عطا کرتا ہے اور میڈل بھی .یقین نہ آے تو عرفان صدیقی .پرویز رشید اور .پی.ٹی.وی .کے ایم.ڈی.مالک صاحب کو دیکھ لو .مزید یقین نہ آے تو نجم سیٹھی کو دیکھ لو .کس طرح کرکٹ کو تباہ بھی کر رہا ہے .اور مال بھی کما رہا ہے .احسن اقبال کو دیکھ لو کہ کس طرح صمدی کو ہاکی فیڈریشن کا انچارج بنا دیا گیا ہے .ہر جگہ صمدی ہر جگہ رشتے دار ہر جگہ کمیشن دینے والے دوست .سیف و رحمان جیسے .ان لوگوں جیسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں .کہ جن لوگوں کا کوئی حلقہ نہیں ہوتا کوئی ووٹ بینک نہیں ہوتا .وہ سپیشل سیٹ اور سپیشل عہدوں پر لگا دے جاتے ہیں .کوئی کسی وزیر کا رشتہ دار ہوتا ہے اور کوئی چمچہ کوئی قصیدہ خوان .سب تھانیداروں .پولیس افسروں .ڈی.آئی .جی ..اور آئی .جی.اور بیوروکریٹ کا ڈیٹا چیک کر لیں .کسی نہ کسی سے تعلق ضرور ہو گا .کوئی جس شاخ پر بیٹھا ہے وہ یا سفارش سے بیٹھا ہے یا رشوت کے بل بوتے پر بیٹھا ہے .اور جو ٹیلنٹ کے زور پر بیٹھا ہے وہ صرف اس وقت تک بیٹھ سکتا ہے جب تک کسی حکمران کی نظر نہیں پڑتی .تو کبھی کبھی یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ جب حکمران آپس میں نجی محفلوں میں بیٹھتے ہیں .تو ہم جیسے لوگوں کو بھونکنے سے تشبیح دیتے ہیں .کہتے ہیں یہ کتے ہیں بھونکنے دو .کیونکہ حکمرانوں کو معلوم ہوتا ہے کہ جتنا مرضی لکھ لیں جتنا مرضی شور مچا لیں .آخر کار فیصلے تو حکمران نے کرنا ہے .کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا یہ وہ جانتا ہے .حکمران ہماری انقلابی سوچ پر ہنستا ہے مسکراتا ہے .اور وہ ہمارا مذاق اڑانے میں حق بجانب بھی ہے .کیونکہ ہم پاگل ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں آزاد ہیں آزاد ملک کے باشندے ہیں .ہمارا کل روشن ہو گا ہم قوم کے کل کے لئے جد و جہد کر رہے ہیں .مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں .کہ جج حکمران کا عدالت حکمران کی .تھانیدار حکمران کا .ہر افسر حکمران کا ہر ادارہ حکمران کا .اور ہم چلے نظام کو بدلنے ..کیونکہ ہماری سوچ یہ سمجھتی ہے کہ ہم جمہوری دور میں آزاد معاشرے میں جی رہے ہیں .جبکہ ایسا نہیں ہے .اس ملک کی تقدیر بدلنے کے لئے .نظام بدلنے کے لئے .حکمران کی سوچ بدلنے کے لئے .حکمران کی ترجیحات بدلنے کے لئے .ایک انقلاب کی ضرورت ہے .میں نے اپنی ١٢ کتابوں میں بار بار انقلاب کا ذکر کیا .اور کہا کہ جمہوریت ابھی اس قابل نہیں ہے کہ نظام تبدیل کر سکے .اس لئے صرف انقلاب کے ذریعہ ہی نظام تبدیل کیا جا سکتا ہے .اور ملک کو پٹری پر ڈالا جا سکتا ہے .مگر بد قسمتی پاکستان کی کہ پاکستان میں ایک انقلاب تو عوام کی طرف سے آ سکتا تھا .مگر کوئی لیڈ کرنے والا نہ تھا .پھر نظریں بھٹو .ضیاء اور مشرف پر تھیں .مگر پھر بد قسمتی پاکستان کے مقدر میں آئی .اور سبز انقلاب نہ آ سکا .اور اقتدار کی ہوس والے اور عالمی سازشی ٹھیکیدار جیت گہے.اور اب پھر میرے انقلاب کا خواب پورا ہونے کی امید کی کرن روشن ہونے کی گھڑی آ پنہچی ہے .عوام اور پاکستانی قوم کی نظریں جناب جنرل راحیل شریف کی طرف دیکھ رہی ہیں .کہ وہ مرد مجاہد اس ملک میں انقلاب لا سکتا ہے .جو کچھ وہ مرد مجاہد اب تک کر چکا ہے اور مزید کر رہا ہے .وہ سب کردار قابل تحسین ہے .اور قوم امید رکھتی ہے .کہ اگر جنرل راحیل شریف ملک کی کمانڈ اینڈ کنٹرول سنبھال لے .تو پھر امید کی جا سکتی ہے .کہ پاکستان میں انقلاب آ سکتا ہے .کالا باغ ڈیم بن سکتا ہے .دہشت گردی ختم ہو سکتی ہے .انڈیا .اس کے حواریوں اور غداروں کو .کرپٹ لوگوں کو نکیل ڈالی جا سکتی ہے .اور پاکستان اپنا کھویا ہوا مقام دنیا کے نقشے پر حاصل کر سکتا ہے .کشکول کو توڑا جا سکتا ہے .معدنی وسائل کو برووے کار لایا جا سکتا ہے .مگر جو جمہوریت اس وقت دیکھی جا رہی ہے .اس جمہوریت کی چھتری تلے انقلاب لانا نظام تبدیل کرنا مشکل لگتا ہے .اس کی وجہ سب سے بڑی یہ ہے .کہ حکمران خود بذات خود کرپشن میں شامل ہے .اور انصاف اور احتساب کے آگے دیوار ہے .خارجہ پالیسی میں حکمران ناکام ہو چکا ہے .انڈیا کو وہ جواب نہیں دیا گیا جس کا وہ مستحق تھا .ہمارا وزیر اعظم قازکستان جاتا ہے تو ائیرپورٹ پر استقبال وزیر خارجہ کرتا ہے .سوچو ذرا میرے مہربان ..افغانستان بھی انڈیا کی طرح چالیں چلتا نظر آ رہا ہے .سب کے سب اور عالمی طاقتیں بھی جنرل راحیل شریف کے جرات مندانہ اقدامات پر خوش نہیں ہیں .مگر پاکستانی قوم خوش بھی ہے اور دعا گو بھی .میرے انقلاب کی تعبیر کو حتمی شکل دینے والا شخص جنرل راحیل شریف ہے .ہم لوگوں کو جو نظر آ رہا ہوتا ہے .جو دیکھتے ہیں ووہی لکھتے ہیں .جو پہلے ہماری سوچ پر پورے نہیں اتر سکے .اس میں عوام کا میرا اور آپ کا کیا قصور ..اللہ اس کی مدد فرماۓ .آمین .ثم آمین ..جاوید اقبال چیمہ ..اٹلی والا ..٠٠٩٢٣٠٢٦٢٣٤٧٨٨
====حکمران کے لئے ہمارے تبصرے تجزیے مشورے سب کے سب بیکار ہے اور بیکار تصور ہوتے ہیں .جب تک کہ حکمرانوں کے درباری گندی ذہنیت رکھنے والے ہوں .ہماری باتیں حکمران کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتیں .ہاں اگر یہی باتیں ہمارے مشورے چرا کر درباری قصیدہ خوان حکمران کے سامنے پیش کرے تو درباری کی مانی بھی جاتی ہے قدر بھی ہوتی ہے اور حکمران کی نظر میں اس درباری کی قدرو منزلت میں بھی اضافہ بھی ہو جاتا ہے .اور کبھی کبھی تو یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اس کو حکمران عھدہ بھی عطا کرتا ہے اور میڈل بھی .یقین نہ آے تو عرفان صدیقی .پرویز رشید اور .پی.ٹی.وی .کے ایم.ڈی.مالک صاحب کو دیکھ لو .مزید یقین نہ آے تو نجم سیٹھی کو دیکھ لو .کس طرح کرکٹ کو تباہ بھی کر رہا ہے .اور مال بھی کما رہا ہے .احسن اقبال کو دیکھ لو کہ کس طرح صمدی کو ہاکی فیڈریشن کا انچارج بنا دیا گیا ہے .ہر جگہ صمدی ہر جگہ رشتے دار ہر جگہ کمیشن دینے والے دوست .سیف و رحمان جیسے .ان لوگوں جیسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں .کہ جن لوگوں کا کوئی حلقہ نہیں ہوتا کوئی ووٹ بینک نہیں ہوتا .وہ سپیشل سیٹ اور سپیشل عہدوں پر لگا دے جاتے ہیں .کوئی کسی وزیر کا رشتہ دار ہوتا ہے اور کوئی چمچہ کوئی قصیدہ خوان .سب تھانیداروں .پولیس افسروں .ڈی.آئی .جی ..اور آئی .جی.اور بیوروکریٹ کا ڈیٹا چیک کر لیں .کسی نہ کسی سے تعلق ضرور ہو گا .کوئی جس شاخ پر بیٹھا ہے وہ یا سفارش سے بیٹھا ہے یا رشوت کے بل بوتے پر بیٹھا ہے .اور جو ٹیلنٹ کے زور پر بیٹھا ہے وہ صرف اس وقت تک بیٹھ سکتا ہے جب تک کسی حکمران کی نظر نہیں پڑتی .تو کبھی کبھی یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ جب حکمران آپس میں نجی محفلوں میں بیٹھتے ہیں .تو ہم جیسے لوگوں کو بھونکنے سے تشبیح دیتے ہیں .کہتے ہیں یہ کتے ہیں بھونکنے دو .کیونکہ حکمرانوں کو معلوم ہوتا ہے کہ جتنا مرضی لکھ لیں جتنا مرضی شور مچا لیں .آخر کار فیصلے تو حکمران نے کرنا ہے .کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا یہ وہ جانتا ہے .حکمران ہماری انقلابی سوچ پر ہنستا ہے مسکراتا ہے .اور وہ ہمارا مذاق اڑانے میں حق بجانب بھی ہے .کیونکہ ہم پاگل ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں آزاد ہیں آزاد ملک کے باشندے ہیں .ہمارا کل روشن ہو گا ہم قوم کے کل کے لئے جد و جہد کر رہے ہیں .مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں .کہ جج حکمران کا عدالت حکمران کی .تھانیدار حکمران کا .ہر افسر حکمران کا ہر ادارہ حکمران کا .اور ہم چلے نظام کو بدلنے ..کیونکہ ہماری سوچ یہ سمجھتی ہے کہ ہم جمہوری دور میں آزاد معاشرے میں جی رہے ہیں .جبکہ ایسا نہیں ہے .اس ملک کی تقدیر بدلنے کے لئے .نظام بدلنے کے لئے .حکمران کی سوچ بدلنے کے لئے .حکمران کی ترجیحات بدلنے کے لئے .ایک انقلاب کی ضرورت ہے .میں نے اپنی ١٢ کتابوں میں بار بار انقلاب کا ذکر کیا .اور کہا کہ جمہوریت ابھی اس قابل نہیں ہے کہ نظام تبدیل کر سکے .اس لئے صرف انقلاب کے ذریعہ ہی نظام تبدیل کیا جا سکتا ہے .اور ملک کو پٹری پر ڈالا جا سکتا ہے .مگر بد قسمتی پاکستان کی کہ پاکستان میں ایک انقلاب تو عوام کی طرف سے آ سکتا تھا .مگر کوئی لیڈ کرنے والا نہ تھا .پھر نظریں بھٹو .ضیاء اور مشرف پر تھیں .مگر پھر بد قسمتی پاکستان کے مقدر میں آئی .اور سبز انقلاب نہ آ سکا .اور اقتدار کی ہوس والے اور عالمی سازشی ٹھیکیدار جیت گہے.اور اب پھر میرے انقلاب کا خواب پورا ہونے کی امید کی کرن روشن ہونے کی گھڑی آ پنہچی ہے .عوام اور پاکستانی قوم کی نظریں جناب جنرل راحیل شریف کی طرف دیکھ رہی ہیں .کہ وہ مرد مجاہد اس ملک میں انقلاب لا سکتا ہے .جو کچھ وہ مرد مجاہد اب تک کر چکا ہے اور مزید کر رہا ہے .وہ سب کردار قابل تحسین ہے .اور قوم امید رکھتی ہے .کہ اگر جنرل راحیل شریف ملک کی کمانڈ اینڈ کنٹرول سنبھال لے .تو پھر امید کی جا سکتی ہے .کہ پاکستان میں انقلاب آ سکتا ہے .کالا باغ ڈیم بن سکتا ہے .دہشت گردی ختم ہو سکتی ہے .انڈیا .اس کے حواریوں اور غداروں کو .کرپٹ لوگوں کو نکیل ڈالی جا سکتی ہے .اور پاکستان اپنا کھویا ہوا مقام دنیا کے نقشے پر حاصل کر سکتا ہے .کشکول کو توڑا جا سکتا ہے .معدنی وسائل کو برووے کار لایا جا سکتا ہے .مگر جو جمہوریت اس وقت دیکھی جا رہی ہے .اس جمہوریت کی چھتری تلے انقلاب لانا نظام تبدیل کرنا مشکل لگتا ہے .اس کی وجہ سب سے بڑی یہ ہے .کہ حکمران خود بذات خود کرپشن میں شامل ہے .اور انصاف اور احتساب کے آگے دیوار ہے .خارجہ پالیسی میں حکمران ناکام ہو چکا ہے .انڈیا کو وہ جواب نہیں دیا گیا جس کا وہ مستحق تھا .ہمارا وزیر اعظم قازکستان جاتا ہے تو ائیرپورٹ پر استقبال وزیر خارجہ کرتا ہے .سوچو ذرا میرے مہربان ..افغانستان بھی انڈیا کی طرح چالیں چلتا نظر آ رہا ہے .سب کے سب اور عالمی طاقتیں بھی جنرل راحیل شریف کے جرات مندانہ اقدامات پر خوش نہیں ہیں .مگر پاکستانی قوم خوش بھی ہے اور دعا گو بھی .میرے انقلاب کی تعبیر کو حتمی شکل دینے والا شخص جنرل راحیل شریف ہے .ہم لوگوں کو جو نظر آ رہا ہوتا ہے .جو دیکھتے ہیں ووہی لکھتے ہیں .جو پہلے ہماری سوچ پر پورے نہیں اتر سکے .اس میں عوام کا میرا اور آپ کا کیا قصور ..اللہ اس کی مدد فرماۓ .آمین .ثم آمین ..جاوید اقبال چیمہ ..اٹلی والا ..٠٠٩٢٣٠٢٦٢٣٤٧٨٨
No comments:
Post a Comment