======انصاف اور جسٹس کاظم علی ملک =====
=اس سے پہلے کہ کوئی الفاظ لکھوں میں جسٹس کاظم علی ملک کو سلام پیش کرتا ہوں .اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اس ملک میں انصاف دینے والے انصاف کے فیصلے لکھنے والے اور انصاف کے لئے جد و جہد کرنے والے عطا فرما .کیونکہ میرے نزدیک جس ریاست میں نہیں ہوتا اس ریاست کو اسلامی ریاست کہنا توہین ہے .یہ سرا سر اسلام کے ساتھ زیادتی ہے کہ آپ مسلمان حکمران ہوں اور عوام کو انصاف فراہم نہ کر سکیں .٦٥ سالوں سے اس ملک میں انصاف کے نام پر لوگوں کو زندگیاں اجیرن بنائی گئیں .لوگ انصاف کے حصول کے لئے در در دھکے خانے پر مجبور کئے گیے.چھوٹے ججوں کو تو چھوڑ دو .پاکستان کی سپریم کورٹ بھی قوم کو انصاف دینے میں ناکام رہی .ہر فیصلے میں حکمران کی خوشنودی نظر آئی اور نظریہ ضرورت کی جھلک نظر آئی .بھوت کم لوگوں نے جج کی انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر لوگوں کو انصاف فراھم کیا .میں کاظم علی ملک صاحب کے بارے میں تھوڑا بھوت جانتا ہوں .یہ گوجرانوالہ میں بھی جب جج تھے .تو ان کے کافی فیصلوں کو جانتا ہوں .ان کے خلاف گوجرانوالہ کے وکیلوں نے ہرتال بھی کی تھی .اس بنیاد پر کہ یہ ہم کو ریلیف نہیں دیتے .اس ریلیف کے کافی مطلب ہیں .آپ مجھ سے زیادہ سمجھدار ہیں .وکیل چاہتے ہیں تاریخوں پر تاریخیں دی جایں .فیصلے میں جلدی نہ کی جاۓ .مقدمہ کو طول دیا جاۓ .تاکہ سائل کے گھر کے سارے برتن بک جایں.وغیرہ وغیرہ .میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ جہاں حکمران انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے وہاں چند وکلا اور بار کا بھی کچھ رول ہوتا ہے .جو ہر وقت ججوں کو انڈر پرشیر رکھتے ہیں .مگر اس کے باوجود جس جگہ جج یا کوئی افسر ہوتا ہے .اس کے بارے میں اس علاقہ میں ایک تاثر ضرور قایم ہو جاتا ہے کہ یہ آدمی کس قماش کا ہے .مجھے یاد ہے اپنا ذاتی تجربہ .کہ جب ١٧ جولائی ١٩٧٦ کو بھٹو صاحب نے کچھ فیکٹریوں کو قومی تحویل میں لیا .تو مجھے ایریا مینجر پسرور لگا کر بیجھا گیا .میں ہائی وے ریسٹ ہاؤس پسرور میں ٹھہرا ہوا تھا .میرے ساتھ اسسٹنٹ کمشنر اکرام صاحب تھے .تو چند دن بعد مجھے انہوں نے بتایا کہ آپ بھوت سخت ہیں .لوگ آپ کے بارے میں کہتے ہیں کہ ایک چیمہ تھانیدار ١٩٤٧ میں آیا تھا اور یہ چیمہ جو آج آیا ہے .جو کرپشن نہیں کرتا .باقی ہم نے آج تک کوئی افسر کرپشن کے بغیر نہیں دیکھا .اس وقت میرے انچارج اور زونل منیجر خالد لطیف تھے .جو بعد میں دو دفعہ کمشنر گوجرانوالہ رہے .ان کا اپنا سٹایل تھا .تو ہر ایک کا اپنا اپنا کام کرنے کا انداز ہوتا ہے .یہ جسٹس کاظم علی ملک صاحب جب ڈائریکٹر جنرل انٹی کرپشن تھے .اس وقت بھی بیوروکریسی ان کے خلاف تھی .کیونکہ پاکستان کی بیوروکریسی بڑی ظالم چیز ہے .جس کو ہر حال میں سیاستدان کو خوش رکھنا ہوتا ہے .اور کافی غلط مشورے سیاستدانوں کو یہی دیتے ہیں .تو اس وقت بھی بیوروکریسی نے یہ کہا تھا کہ اگر یہ شخص بیوروکریسی کی کرپشن پر اسی طرح ہاتھ ڈالتا رہا تو حکومت اگلا الیکشن ہار جاۓ گی .تو ان کو ہٹا دیا گیا تھا .با اصول با ضمیر شخص چند بیوروکریٹ اور سیاستدانوں کو اس ملک میں راس نہیں آتا .ذولفقار چیمہ کی طرح کافی مثالیں موجود ہیں .سب سے سوچنے والی اور حیران کن بات یہ ہے .کہ جسٹس کاظم علی ملک کے ٦ نکات جو انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھے ہیں .کیا سپریم کورٹ کے ججوں نے ان کو اپنے فیصلوں پر کبھی لاگو کیا ہے .سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کا آخری فیصلہ جوڈیشنل کمیشن دھاندلی والا ہی اٹھا کر دیکھ لو .باقی اصغر خان کیسس اور کرپشن اور غداری کے کیس چھوڑ دو .کیا کسی فیصلے میں ان ٦ نکات کو مد نظر رکھا گیا .اگر کاظم علی ملک صاحب کے ٦ نکات کو مد نظر رکھا جاتا .جو ایک جج کی ضمیر کی آواز ہے .تو پاکستان کی تقدیر بدل جاتی .مگر ہم نے تو ہر ڈکٹیٹر کے ریفرنڈم سے لے کر ہر بادشاہ ہر خلیفہ ہر نام نہاد جمہوریت کے ڈکٹیٹر کو تحفظ فراہم کیا .پھر کہتے ہیں کہ عوام کا قصور ہے ڈکٹیٹروں کا قصور ہے .جنہوں نے اس ملک کو تباہ کیا .نہیں میں عرض کرتا ہوں کہ اس ملک کو ان ججوں نے تباہ کیا ان کے فیصلوں نے تباہ کیا .جنہوں نے نظریہ ضرورت کو مقدم رکھا اور ریاست کو قوم کو پیچھے رکھا .ججوں نے اپنی ذات کو پروان چڑھایا اپنی خود غرضی خود نمائی کو اولیت دی .افتخار چودھری کی طرح ..آخر وہ ٦ نکات ہیں کیا .جس کو کاظم علی ملک نے ضمیر کی آواز دے کر تحریر کیا =١.کیا میں صرف خورد و نوش کے لئے پیدا کیا گیا ہوں =٢.کیا میں کھونٹے پر بندھے اس جانور کی طرح ہوں جسے صرف اپنے چارے کی فکر ہوتی ہے =٣.کیا میں ایک بے لگام درندہ ہوں جسے کھانے کے سوا کسی چیز سے سرو کار نہیں ہوتا =٤.کیا مجھ میں دین .ضمیر یا اللہ کا خوف نہیں ہے =٥.کیا مجھے اس کائنات میں ہر طرح کی آزادی حاصل ہے =٦.کیا مجھے یہ حق ہے کہ میں صراط مستقیم کو چھوڑ کر باطل قوتوں کی راہوں میں بھٹکتا رہوں .یہ ہیں وہ ٦ سوال جس پر حکومت وقت کو تکلیف ہوئی .حالانکہ آپ سب اپنے خدا کو حاضر ناظر جان کر اپنے ضمیر سے یہ سوال کریں اور پھر جوابات حاصل کریں .کہ واقه تن ہم اسلامی معاشرے میں زندہ ہیں .اور کیا واقیہی ہم اپنے اللہ اور رسول کی رسی کو مضبوطی سے تھامے ہووے ہیں .اور جو کچھ ہم اپنے ملک کے ساتھ مذھب دین اسلام کے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں .وہ ٹھیک کر رہے ہیں یا غلط ..اور کیا یہ نظام اسلامی ہے یا فرھنگی ..اور اس کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں .فیصلہ آپ پر ..جاوید اقبال چیمہ ..اٹلی والا ..٠٠٩٢٣٠٢٦٢٣٤٧٨٨
=اس سے پہلے کہ کوئی الفاظ لکھوں میں جسٹس کاظم علی ملک کو سلام پیش کرتا ہوں .اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اس ملک میں انصاف دینے والے انصاف کے فیصلے لکھنے والے اور انصاف کے لئے جد و جہد کرنے والے عطا فرما .کیونکہ میرے نزدیک جس ریاست میں نہیں ہوتا اس ریاست کو اسلامی ریاست کہنا توہین ہے .یہ سرا سر اسلام کے ساتھ زیادتی ہے کہ آپ مسلمان حکمران ہوں اور عوام کو انصاف فراہم نہ کر سکیں .٦٥ سالوں سے اس ملک میں انصاف کے نام پر لوگوں کو زندگیاں اجیرن بنائی گئیں .لوگ انصاف کے حصول کے لئے در در دھکے خانے پر مجبور کئے گیے.چھوٹے ججوں کو تو چھوڑ دو .پاکستان کی سپریم کورٹ بھی قوم کو انصاف دینے میں ناکام رہی .ہر فیصلے میں حکمران کی خوشنودی نظر آئی اور نظریہ ضرورت کی جھلک نظر آئی .بھوت کم لوگوں نے جج کی انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر لوگوں کو انصاف فراھم کیا .میں کاظم علی ملک صاحب کے بارے میں تھوڑا بھوت جانتا ہوں .یہ گوجرانوالہ میں بھی جب جج تھے .تو ان کے کافی فیصلوں کو جانتا ہوں .ان کے خلاف گوجرانوالہ کے وکیلوں نے ہرتال بھی کی تھی .اس بنیاد پر کہ یہ ہم کو ریلیف نہیں دیتے .اس ریلیف کے کافی مطلب ہیں .آپ مجھ سے زیادہ سمجھدار ہیں .وکیل چاہتے ہیں تاریخوں پر تاریخیں دی جایں .فیصلے میں جلدی نہ کی جاۓ .مقدمہ کو طول دیا جاۓ .تاکہ سائل کے گھر کے سارے برتن بک جایں.وغیرہ وغیرہ .میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ جہاں حکمران انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے وہاں چند وکلا اور بار کا بھی کچھ رول ہوتا ہے .جو ہر وقت ججوں کو انڈر پرشیر رکھتے ہیں .مگر اس کے باوجود جس جگہ جج یا کوئی افسر ہوتا ہے .اس کے بارے میں اس علاقہ میں ایک تاثر ضرور قایم ہو جاتا ہے کہ یہ آدمی کس قماش کا ہے .مجھے یاد ہے اپنا ذاتی تجربہ .کہ جب ١٧ جولائی ١٩٧٦ کو بھٹو صاحب نے کچھ فیکٹریوں کو قومی تحویل میں لیا .تو مجھے ایریا مینجر پسرور لگا کر بیجھا گیا .میں ہائی وے ریسٹ ہاؤس پسرور میں ٹھہرا ہوا تھا .میرے ساتھ اسسٹنٹ کمشنر اکرام صاحب تھے .تو چند دن بعد مجھے انہوں نے بتایا کہ آپ بھوت سخت ہیں .لوگ آپ کے بارے میں کہتے ہیں کہ ایک چیمہ تھانیدار ١٩٤٧ میں آیا تھا اور یہ چیمہ جو آج آیا ہے .جو کرپشن نہیں کرتا .باقی ہم نے آج تک کوئی افسر کرپشن کے بغیر نہیں دیکھا .اس وقت میرے انچارج اور زونل منیجر خالد لطیف تھے .جو بعد میں دو دفعہ کمشنر گوجرانوالہ رہے .ان کا اپنا سٹایل تھا .تو ہر ایک کا اپنا اپنا کام کرنے کا انداز ہوتا ہے .یہ جسٹس کاظم علی ملک صاحب جب ڈائریکٹر جنرل انٹی کرپشن تھے .اس وقت بھی بیوروکریسی ان کے خلاف تھی .کیونکہ پاکستان کی بیوروکریسی بڑی ظالم چیز ہے .جس کو ہر حال میں سیاستدان کو خوش رکھنا ہوتا ہے .اور کافی غلط مشورے سیاستدانوں کو یہی دیتے ہیں .تو اس وقت بھی بیوروکریسی نے یہ کہا تھا کہ اگر یہ شخص بیوروکریسی کی کرپشن پر اسی طرح ہاتھ ڈالتا رہا تو حکومت اگلا الیکشن ہار جاۓ گی .تو ان کو ہٹا دیا گیا تھا .با اصول با ضمیر شخص چند بیوروکریٹ اور سیاستدانوں کو اس ملک میں راس نہیں آتا .ذولفقار چیمہ کی طرح کافی مثالیں موجود ہیں .سب سے سوچنے والی اور حیران کن بات یہ ہے .کہ جسٹس کاظم علی ملک کے ٦ نکات جو انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھے ہیں .کیا سپریم کورٹ کے ججوں نے ان کو اپنے فیصلوں پر کبھی لاگو کیا ہے .سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کا آخری فیصلہ جوڈیشنل کمیشن دھاندلی والا ہی اٹھا کر دیکھ لو .باقی اصغر خان کیسس اور کرپشن اور غداری کے کیس چھوڑ دو .کیا کسی فیصلے میں ان ٦ نکات کو مد نظر رکھا گیا .اگر کاظم علی ملک صاحب کے ٦ نکات کو مد نظر رکھا جاتا .جو ایک جج کی ضمیر کی آواز ہے .تو پاکستان کی تقدیر بدل جاتی .مگر ہم نے تو ہر ڈکٹیٹر کے ریفرنڈم سے لے کر ہر بادشاہ ہر خلیفہ ہر نام نہاد جمہوریت کے ڈکٹیٹر کو تحفظ فراہم کیا .پھر کہتے ہیں کہ عوام کا قصور ہے ڈکٹیٹروں کا قصور ہے .جنہوں نے اس ملک کو تباہ کیا .نہیں میں عرض کرتا ہوں کہ اس ملک کو ان ججوں نے تباہ کیا ان کے فیصلوں نے تباہ کیا .جنہوں نے نظریہ ضرورت کو مقدم رکھا اور ریاست کو قوم کو پیچھے رکھا .ججوں نے اپنی ذات کو پروان چڑھایا اپنی خود غرضی خود نمائی کو اولیت دی .افتخار چودھری کی طرح ..آخر وہ ٦ نکات ہیں کیا .جس کو کاظم علی ملک نے ضمیر کی آواز دے کر تحریر کیا =١.کیا میں صرف خورد و نوش کے لئے پیدا کیا گیا ہوں =٢.کیا میں کھونٹے پر بندھے اس جانور کی طرح ہوں جسے صرف اپنے چارے کی فکر ہوتی ہے =٣.کیا میں ایک بے لگام درندہ ہوں جسے کھانے کے سوا کسی چیز سے سرو کار نہیں ہوتا =٤.کیا مجھ میں دین .ضمیر یا اللہ کا خوف نہیں ہے =٥.کیا مجھے اس کائنات میں ہر طرح کی آزادی حاصل ہے =٦.کیا مجھے یہ حق ہے کہ میں صراط مستقیم کو چھوڑ کر باطل قوتوں کی راہوں میں بھٹکتا رہوں .یہ ہیں وہ ٦ سوال جس پر حکومت وقت کو تکلیف ہوئی .حالانکہ آپ سب اپنے خدا کو حاضر ناظر جان کر اپنے ضمیر سے یہ سوال کریں اور پھر جوابات حاصل کریں .کہ واقه تن ہم اسلامی معاشرے میں زندہ ہیں .اور کیا واقیہی ہم اپنے اللہ اور رسول کی رسی کو مضبوطی سے تھامے ہووے ہیں .اور جو کچھ ہم اپنے ملک کے ساتھ مذھب دین اسلام کے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں .وہ ٹھیک کر رہے ہیں یا غلط ..اور کیا یہ نظام اسلامی ہے یا فرھنگی ..اور اس کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں .فیصلہ آپ پر ..جاوید اقبال چیمہ ..اٹلی والا ..٠٠٩٢٣٠٢٦٢٣٤٧٨٨
No comments:
Post a Comment