،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،کیا انقلاب آے گا ،،،،،،،،،،،
یہ بڑے بڑے محلات ، ، نوکرشاہی ،،وڈیرہ شاہی ،،جاگیردار ،،ہر طرف قاتلو غارت ،،خون کی ندیاں ،،افراتفری ،،خود غرضی ،،لاقانونیت ،،مزھبھی تفرقہ بازی ،،مادیت پرستی کی انتہا ،،اخلاق ناپید ،،ہر طرف منافقت کا دور دورہ ہے ،،جس کی لاٹھی اس کی بھینس ،،چور اچکا چودھری تے غنڈی رن پردھان ،،نہ بجلی نہ گیس نہ روزگار نہ انصاف ،،نہ کوئی سہولت ،،ڈاکے ،،چوریاں ،،زنا بلجبر ،،بےراہروی اپنی انتہا پر ،،پچاس پچاس گھروں کے افسروں کے گھر ،،مفت پٹرول ،مفت گیس بجلی اور بیگمات کی شاپنگ،،مفت رہایش ،،سارے فضول اخراجات ججوں ،جرنیلوں ،بیوروکریٹ اور سیاستدانوں کے ،،،یہ سب کچھ سچ ہے کہ نہیں ،،قرضے لینا اور معاف کروا لینا ،،دہشت گردی سے اربوں ڈالر کمانا ،،ملک سے غداری کی رقم وصول کرنا ،،حسین حقانی اور عاصمہجہانگیر کی طرح ،،اوم کا خون بھر کے ملکوں میں جمہ کرنا ،،فائیو سٹار ہوٹلوں کے اخراجات ،،جہازوں کے فری ٹکٹ ،،ریسٹ ہاؤس کی عیاشیاں،،پروٹوکول ،،،کیا یہ سب کچھ انقلاب کی رہ ہموار کرنے کے لئے کافی نہیں ہے ،،اب اور کیا چاہتے ہو ،،جس سے یہ بات ثابت کروں کہ بغیر انقلاب یہ سب کچھ بدلنے والا نہیں ہے ،،کتنا ہم نیں مزید برباد ہونا ہے ،،صفیہ ہستی سے تو خدا نے ہم کو مٹانا نہ ہے ،،،اور تم انقلاب کے لئے نہ نکل کر کونسا تمغہ لے لو گے ،،ایک نہ ایک دن تو تمہیں اپنی مجبوری کے لئے نکلنا ہو گا ،،،اس وقت نکلتے تو ملک کے لئے ،،کل کو نکلو گے تو اپنی خود غرضی کے لئے نکلو گے ،،ملک کو اتنا نقصان چوروں لٹیروں سے نہیں پنچا،،جتنا ایماندار لوگوں کی خاموشی سے پنچے گا ،،،سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح نیک لوگوں کو متحد ہونا پڑے گا ،،،ملک اور اسلام ،،اللہ اور نبی کی خاطر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا ہو گا ،،،میں نے بوہت سارے کالم انقلاب کے لئے لکھ ھووے ہیں ،،پڑھ لیں ،،انقلاب کیوں آ رہا ہے ،،انقلاب کیوں ضروری ہے ،،انقلاب کس جانور کا نام ہے ،،انقلاب ہی نظام کو بدل سکتا ہے ،،،پہلے یہ قصہ ، کہانیاں میں تھا ،،کافی سوالو جواب کی زد میں تھا ،،اب ہر کسی کی زبان پر ہے ،،کہ انقلاب ہی ہمارا حل ہے ،،،ہر زی شعور اب انقلاب کی روح کو سمجنے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے ،،آج تک ہم جس انقلاب ، انقلاب ، کے لئے کچھ نہ کر سکے ،،حتہ کہ علامہ اقبال بھی انقلاب کی امید او جوش اوم کو دے چکے ہیں ،،مگر جو کام یہ قوم نہ کر سکی ،،بلاخر حکمرانوں کی کرپشن نے رہ ہموار کر دی ہے ،،،اب عام آدمی کو بھی انقلاب کا جواب مل چکا ہے ،،حالات اس قدر خراب کر دے گے ہیں ،،کہ فرسودہ نظام تبدیلی کے آخری موڑ پر آ چکا ہے ،،یہ نظام اب بوسیدہ چادر کی طرح بیکار ہو چکا ہے ،،،آمریت اب جمہوریت کے لبادہ میں بدروح کی طرح اپنے قدم جما چکی ہے ،،،حقیقت میں ہم غلام تھے اور غلام ہیں ،،دو طرفہ شکنجہ کی غرفت میں ہیں ،،ایک طرف ہمارا ظالم ،جابر،،آمر،،مفادپرست ،،پھٹھوطبقہ ہر آنے والے کے تلوے چاٹتا ہے ،،او اپنا حصہ وصول کرتا ہے ،،دوسری طرف غدار غیر ملک آقا سے ڈالر وصول کرتا ہے ،،تا میرے عقلمندوں کی خریدو فروخت کر سکے ،،،اب نجات کا واحد راستہ انقلاب ہے ،،ہمارا دشمن کامیاب ہو چکا ہے ،،اب ہم میں اتنی بھی عقل نہ ہے ،،کہ یہ سمجھ سکیں کہ قاضی حسسیں احمد جیسے لوگوں پر حملے کون کروا رہا ہے ،،ہم آپس میں گھتم گھتا ہو رہے ہیں ،،انقلاب کے زریہ غلامی کے تالوں کو توڑنا ہو گا ،،اب انقلاب کے لئے کسی لیڈر کی بھی ضرورت نہ ہے ،،عوام اتحادو یگانگت سے نکلے گی اور حکمرانوں کے ایوانوں کو بھا کر لے جاۓ گی ،،،جو قد آور شخصیت عوام کا ساتھ دے گی ،،وہی لیڈر ہو گا ،،،میں اپنے حکمرانوں سے ناامید ہو چکا ہوں ،،،،،اور جو شعور والے لوگ امید سے ہیں ،،،میں ان مفکروں ، فلاسفروں ،،دانشوروں ،کو سلام پیش کرتا ہوں ،،،اس طرح کہ خوش رہو ،اور اپنی اپنی امید کے کفن میں قوم کو بھی لپٹ کر قبر میں اتار دو ،،،میں تو اپنی اوقات کے مطابق اپنا حصہ ڈال رہا ہوں اور مزید بھی مرنے کے لئے تیار ہوں ،،لاکھوں پاکستانیوں کی طرح اپنی آگ میں جل رہا ہوں ،،میری باھرویں کتاب،،طوفانی انقلاب ،،،کی آخری غزل ملاحضہ فرما لیں ،،،
سوچتا ہوں کیا لکھوں ، اپنا ہی دردے پنہاں لکھوں ،،،
کس کرب سے گزرا وہ کربے جہاں لکھوں ،،،،،،،،،،
خون میں بکھری لاشوں پ قوم داستان لکھوں ،،،،،،،
یا لکھوں عزابے خدا ہے میرا حکمران لکھوں ،،،،،،
ہے کربلا یا سجا ہے کربلا کا میدان لکھوں ،،،،،،
جس پ ہے شعور مگر نہیں احساسے زیاں لکھوں ،،،،،
رک جاتا ہے قلم بسا اوقات میرے درد کے ساتھ ،،،،
روتا ہے دل حکمرانوں کے کارنامے کہاں لکھوں ،،،،،
کہاں سو گہے دنیا میں میرے مہربان لکھوں ،،،،،
زیرے عتاب ہے ہر طرف دنیا میں مسلمان لکھوں ،،،،
پھر بھی ناامید نہیں خدا اور نبی سے جاوید ،،،،،
حکمران سے ناامید لکھوں یا بدگماں لکھوں ،،،،،
جاوید اقبال چیمہ ،،میلان ،،اطالیہ،،،،،٠٠٣٩،٣٢٠،٣٣٧،٣٣٣٩،،،،خدا حافظ ،،،،،،
No comments:
Post a Comment