میاں صاحب کا جلسہ اٹلی ،،،،تیسری قسط ،،
،،،،سواے انقلاب میرے اندر کوئی جذبات نہیں ،،،،
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،میری موت سے آ جاے انقلاب ایسے بھی کوئی حالات نہیں ،،،،
،،،،قوم کو جگانے کی کوشش تو کی بھوت ،،،،،
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،شاید میرے مقدر میں کوئی تمغاۓ حادثات نہیں ،،،،،،،،،،،،،،،،
،،،،کبھی غمے دنیا میرے اندر کبھی غمے قوم تھا ،،،،،،،،،،،
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،ٹکڑا جاتا حکمران سے مگر وسایل تعلقات نہیں ،،،،،،،،،،،،،،،،
میاں صاحب کی کافی سٹوریاں میرے پاس محفوظ ہیں ،،کافی کالم لکھ بھی چکا ہوں ،،مسلن،،ڈی،سی،،گوجرانوالہ ، اختر علی مونگا ،،،،جیل روڈ ،،روزنامہ پاکستان ،،اکبر علی بھٹی ،،نظامی صاحب کیا فرماتے ہیں ،،مشاہد کیسے چمچہ بنا ،،میاں صاحب کی سوچ میں فرق ،،خلافت ،،حُسسیں حقانی کی وفاداریاں ،،جونیجو اور میاں صاحب ،،ضیاء سے وفاداری ،،اور بہوت کچھ ،،،،آپ میری ویب سائٹ پر جا کر ملاھذا کر سکتے ہیں ،،میری انقلاب .بلاگسپاٹ .کم ،،کھولیں ، یا گوگل پر انقلے زمانہ کلک کریں ،،،میں یہ سب باتوں کا ایک ہی حل انقلاب اس لئے کہتا ہوں ،کہ جب قوم کا رویحہ او چال چلن دیکھتا ہوں ،،تو برملا کہتا ہوں ،،کہ انقلاب کے سوا نہ تو حکمران بدلے گا اور نہ قوم کو عقل آے گی ،،،،کیونکہ یہ بات اس لئے لکھ ڈی ہے ،،،کہ میاں صاحب کا جلسہ بوہت اچھا ہووا،،مگر یہ لوگ اس وقت کہاں تھے ،جب میاں صاحب ملک بدر تھے ، یا اسلام آباد ائیرپورٹ سے بے یارومدگار واپس کر دے گاہے تھے ،،صرف جاوید ہاشمی کی طرح چند قربانی دینے والے تھے ،،اٹلی میں وہ وقت یاد آ گیا ،،جب شوکت عزیز اور چودری گروپ میلان ہوٹل میں آے تھے ،،تو انہی لوگوں کو میں نے ڈھول کی تھاپ پر نعرے لگاتے دیکھا تھا ،،ہم ایسا کیوں کرتے ہیں ،،جب ہم مفاد پرستی کی سیاست کریں گے ،، تو ہمارے لیڈر بھی ہمارے ساتھ یہی کریں گے ،جو میاں صاحب اپنے جیالوں سے کر کے گے ہیں ،،نہ ان کی تقریر اور نہ ان کا رویہ ورکر کے معیار پر پورا عطر سکا ،،،ورکر کو افسوس ہوا ،،،،ہم بھی بیوفائی کرنے میں ماہر ہیں ،،ابھی چند ہفتے پہلے ہم جلسوں میں ،یم،قیو ،یم ،،اور الطاف بھائی کے نعرے لگتے تھے ، کیونکہ قونصل خانہ میلان میں الطاف بھائی کے خاص آدمی تھے ،،تو ہم بھی کبھی کبھی ایسے کام کرتے ہیں ،،کہ ہماری اپنی وفاداری مشکوک ہو جاتی ہے ،،پھر آپ کہتے ہیں ،کہ انقلاب کے بغیر سب کچھ بدل جایے گا ،،میرے نزدیک ناممکن ہے ،،کیونکہ ہم بحثیت قوم اپنے کلچر سے اپنے مذهب سے بھوت دور نکل چکے ہیں ،،،اب ہم اتنے مادیت پرست ہو چکے ہیں ،،کہ دوست کی گردن کو کاٹنا تو دور کی بات ہے ،،اب تو بیٹا دولت کی خاطر اپنے والدین کو قتل کر دیتا ہے ،،،بیٹی اپنے والدین کو صرف اس لئے راستے سے ہٹا دیتی ہے ،،کیونکہ وہ اس کے عشق میں رکاوٹ بن رہے ہیں ،،،چھوٹ نہیں بول رہا ،،اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں ،،،،،حقیقت کو چتھلانا مناسب نہ ہے ،،،جلسے کے سارے کرداروں پر نظر دوڑاتا ہوں ،،تو سوچتا ہوں ،کہ انقلاب ہی واحد حل رہ چکا ہے ،،،کچھ لوگ وہ تھے جو مطلب اور مفاد کی اینٹ رکھ رہے تھے ،،کچھ ان کے کاروباری رکھوالے تھے ،،کچھ عھدوں کے لالچی تھے ،،کچھ بے لوث تھے ،،جن کو کھانے کے لئے اندر بھی جگہ نہ مل سکی ،،بیچارے افسردہ واپس اپنے گھروں کو مایوس چلے گے،،،اس امید پر کہ پھر کوئی ذریعہ ڈھونڈ لیں گے ،، ملاقات کا ،،ویسے اگر میں آرگنایزر ہوتا ،تو میں دس دس آدمی کی ٹولیوں کی صورت میں سب کی ملاقات کا انتظام کرتا ،،اس طرح دو فائدے ہوتے ،،ایک تو میاں صاحب کی مقبولیت میں اضافہ ہو جاتا ،،دوسرے تمام ورکر بھی راضی ہو جاتے ،،او سب کی گروپ فوٹو بھی بن جاتی ،،،،ویسے ہر ملک میں جو میاں صاحب کے کاروباری کارندے ہیں ، جو کالا دھن کو سفید کرنے میں مددگار ہوتے ہیں ،،وہ سب سے زیادہ ورکر کے درمیان رکاوٹ کا اور نفرت کا سبب بنتے ہیں ،،اور یہی وہ لوگ ہیں ،،جن کے سپاسنامہ نہ پیش کرنے پر عام ورکر کو دکھ ہوتا ہے ،،اور مسایل حل نہیں ہوتے ،،کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو لیڈروں کو غلط سبق پڑاہتے ہیں ، جس سے لیڈروں اور ورکر کے درمیان فاصلہ بھڑتا ہے ،،،میاں صاحب کے یہ کاروباری کارندے تقریبن ہر ملک میں موجود ہیں ،،،اسی وجہ سے لیڈر صہی سمت سفر جاری نہیں رکھ سکتے ،،،،کاش میرے لیڈر اپنی عقل اور ذہنیت کا استمعال کریں ، یا ہر وقت اپنے قول و فھل میں تضاد نہ رکھیں ،،،اور عمر فاروق نہیں بن سکتے تو کوئی بات نہیں ،،کم از کم آخرت اور قبر کو تو یاد رکھیں ،،جب یہ حرکتیں لیڈروں کی دیکھتا ہوں تو کہتا ہوں کہ انقلاب ہی ان کو راستہ دکھاۓ گا انشااللہ ،،اگلی قسط جاری ہے ،،،،،،،،انشااللہ ،،،،،،،جاوید اقبال چیمہ ،،میلان،، اطالیہ،،٠٠٣٩،،٣٢٠،،٣٣٧،،٣٣٣٩،،،
No comments:
Post a Comment