،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،مُختلِف،،، سوچ کا زاویہ ،،،،،،،،،،،،،،،،،
...................ہر انسان کی سوچ مختلف ہوتی ہے ...اپنی راۓ کو کسی پر مسلط نہیں کیا جا سکتا .....اور نہ کسی کو عھدے کے لحاظ سے پرکھنا جایز ہے ..یا جس کے پاس عھدہ ہے اس کی بات صہی ہے ..اینکر یا کالم نگار جو کہتا اور لکھتا ہے ..وہ کوئی حدیث نہیں کہ ہم اس کو سچ جانیں یا اس پر عمل کریں ..میں آزادی اظھار اور اخلاقی طور پر اتنا ہی پابند ہوں ..جس سے اسلام کے اندر دخل اندازی نہ ہونے پاۓ اور ملکی سالمیت پر کوئی آنچ نہ آنے پاۓ ...ہم لوگ جو میڈیا کے ٹھیکیدار بنے ہووے ہیں .اینکر یا کالم نگار بننے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ ہم کوئی بھوت بڑے تیس مار خان بن چکے ہیں ..اور ہم کہتے ہیں ووہی ہو ...اور اسی طرح حکمران کی سوچ بھی فرعون سے کم نہیں ہے ..انسان کوئی بھی پیدایشی برا نہیں ہوتا ..اس کو حکمرانوں کے چال چلن برا بنا دیتے ہیں ..کوئی باغی ہو جاتا ہے اور کوئی چمچہ ...کچھ قصیدہ لکھنے والے اور کچھ حقیقت لکھنے والے ..کچھ پر قدگن اور کچھ پر پلاٹ نچھاور ...یہ ہے اس ملک کا نظم ..اور ہم جیسوں کو کہا جاتا ہے کہ آپ کو اخلاق اور تمیز نہیں ہے ..خود ریمنڈ ڈیوس کو راتوں رات عدالت لگا کر جھوڑ دیا جاتا ہے .اس وقت لکھنے والوں اور حکمرانوں کی غیرت کہاں جاتی ہے ..غدار حسین حقانی کو پروٹوکول دے کر رکھا جاتا ہے پھر کچھ بغیرتوں کے شور مچانے پر اور عدالت پر دباؤ ڈالنے پر اس کو باہر جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے ....اس کو انصاف کہوں .یا غداری .یا بغیرتی ...انڈیا ہمارے ملک کو دہشت گردوں کی آماجگاہ بنا چکا ہے ..میرا حکمران خاموش ہے ..انڈیا ہمارا پانی کونٹرول کر چکا ہے ..اس کو حکمران کی بے حسی کہوں .غداری کہوں .یا بغیرتی کہوں ..اس جنگ میں ڈالر کمانے والوں کو اور جنگ کو شروح کرنے والوں کو اور اس میں چھلانگ لگانے والوں کو غیرت مند کہوں تو ہی بتا دے ...ملک کا بیڑہ غرق کرنے والوں کو اور عالمی سازش کے اجنٹ کو غیرت مند کہوں تو ہی بتا دے ...اگر میرے بچے بھوک افلاس ..مہنگائی ..بیروزگاری اور بد امنی کی وجہ سے دہشت گرد بنتے جایں ...تو بتا دے میں حکمران کو غیرت مند لکھوں ..یا حکمران کا قصیدہ لکھوں یا ماتم کروں ...اگر میرے گھر میں تین عدد ماسٹر ڈگری ہولڈر ہوں ..اور سب بیروزگار ہوں ..تو بتا مجھ سے کیا توقوح کرتا ہے ..کس اخلاق کا تو مجھے درس دیتا ہے ..حکمران اور حکمرانوں کے گماشتوں کو بےغیرت نہ لکھوں تو کیا لکھوں ..جن کی اپنی دولت باہر کے ملکوں میں ہو ..تو وہ ملک کو قرضہ کشکول لے کر چلانا چاہتے ہوں اور باہر سے انویسٹمنٹ چاہتے ہوں ..ان کو غدار نہ لکھوں تو کیا لکھوں ...جو کمشن کو کھانا اور پاکستانی عوام کے خون کو لندن کے بنکوں میں جما کروانا اپنا حق سمجھتے ہوں ..بتا میں ان کو غدار نہ لکھوں تو کیا لکھوں ..انسان کوئی برا نہیں ہوتا نہ اس کی تحریر بری ہوتی ہے ..حالات و واقعات انسان کو پھسلنے پر مجبور کر دیتے ہیں ..ہم سب بکنے کو تیار ہیں ..ہو سکتا ہے ..کل کو میں بھی بک جاؤں ..پھر تمہاری طرح لوگوں کو نصیحت کرتا پھروں گا ..کہ ناامیدی گناہ ہے ..جمہوریت کو چلنے دو ..آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جاے گا ..کب تک انتظار کروں ..جب بچے ڈگریوں کو جلا دیں ..یا بھوک سے مر جائیں ..یا کسی دن کسی مقدمے میں جیل چلے جائیں ..اس دن کا انتظار کروں ....بتا تم روٹی کے لئے کتنا انتظار کر سکتے ہو ...مشورے دینا اور نصیحتیں کرنا آسان ہے ..اصل حقیقت تک پنچننا مشکل ہوتا ہے ..تم کیا سمجھتے ہو میرے سینے میں دل نہیں ہے ..کیا وہ دھڑکتا نہیں ہے ...بلکہ تم بھی حکمران کی طرح بے حس ہو چکے ہو ..کیونکہ تمہارے گھر میں ڈال روٹی ہے ......میں بے غیرت ..غدار کو ..بےغیرت غدار لکھتا ہوں ..تمہاری طرح حافظ سعید ..فرید پراچہ ..جاوید ہاشمی ..لیاقت بلوچ ..ڈاکٹر قدیر اور جنرل حمید گل کو غدار نہیں لکھتا ...وہ حکمران غدار اور بیغرت ہے ..جس کے پاس اختیارات ہیں ..وہ ملک کے سب کچھ کر سکتا ہے ..مگر اپنی کرسی کو بچانے کی خاطر کچھ نہیں کرتا ..وہ غدار ہے ..جو مراعات تو پاکستان سے لیتا ہے .مگر کام ملکی سالمیت کے خلاف کرتا ہے ....تیرے نزدیک میں لکھاری نہیں ہوں ..مگر میں ملکی سالمیت کے خلاف نہ لکھتا ہوں اور نہ مجھے کسی تمغے کی ضرورت ہے ..کہ میں قصیدہ لکھوں ...اس ملک میں ان کے بچوں کو نوکریاں دی جاتی ہیں جو قصیدہ خان ہیں ...یہ ہے تمہارے ملک کا بد ترین بےغیرت نظام ..گندہ اور غلیظ نظام اور بد ترین بےغیرت مفاہمت والی جمہوریت ......جس کو تم پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہو ..چاہے ملک کا مزید بیڑہ غرق ہو جاۓ ....آجکل بڑا لکھاری بڑی اخبار والا ہے یا پھر اینکر ہے ..اس کا بڑا نام ہے ..جس کے پیچھے ملک ریاض جیسی مافیا کا کردار ہو ...آجکل تو چنیل میں اور اخبار میں لکھنے کے لئے بھی کسی بڑے کی سفارش درکار ہے ....تم کو کس پاگل نے کہا ہے ..کہ میں لکھاری ہوں ..اور تم مجھ کو نصیحت کر رہے ہو ....برخوردار میں باغی ہوں اس بےغیرت نظام سے ...انقلاب چاہتا ہوں ..انقلاب کے لئے لکھتا ہوں ....اگر انقلاب نہیں آیا ..تو تم جیسے لوگ دیوار ہیں ...انقلاب پر لکھنے والا لکھاری نہیں ہوتا ..پاگل ہوتا ہے .. کیا جالب اور فیض پاگل تھے ..مجھے لفظوں کا سہارہ نہیں لینا ..اپنے ضمیر کی آواز تم تک پنچانا مقصود ہے ..تمہارے ضمیر کو جھنجھوڑنا مقصود ہے ..شاید کے اتر جاۓ تیرے دل میں میری یہ بات ...اللہ نہ کرے تجھے ان بےغیرت حکمرانوں سے کوئی کام پڑ جاۓ ...اللہ نہ کرے تیرے ساتھ کوئی ڈکیتی کا واقعہ ہو جاۓ ..اور پھر تمہاری فریاد سننے والا کوئی نہ ہو ...اور پھر تمہارے منہ سے بھی بےغیرت حکمران نکل جاۓ ....میرے جیسے لوگوں کے اتنے مسایل ہیں ..کہ تم میرے منہ سے صرف بےغیرت کا لفظ سن رہے ہو ....اگر میرے پاس کوئی اختیار ہو ..تو میں پہلی رات ہی سب چوروں .لٹیروں کو الٹا لٹکا کر پھانسی دے دوں ...اس ملک کا ایک ہی واحد حل ہے ..انقلاب..انقلاب...انقلاب...ورنہ میرے جیسے لوگوں کو تم کیا نصیحت کرو گے ...زیادہ سے زیادہ پھانسی پر لٹکا دو گے تو بڑے شوق سے لٹکا دو ...بغیرتوں کو بےغیرت کہنے والے ابھی اس دنیا میں اور بھی ماں کے لال ہیں ......تم خوش رہو ..اپنے حال میں ..مجھے تم جیسے بے حس کی شاگردی نہیں چاہئے ..........ہر انسان کو معاشرے کے خون خار بھیڑئے بدلنے پر مجبور کر دیتے ہیں ............شاید ایک وقت ایسا آ جاے ..کہ تم بھی انقلاب کی دعا مانگنے والے بن جاؤ ...........جاوید اقبال چیمہ ..میلان ..اطالیہ ..........٠٠٣٩..٣٢٠...٣٣٧...٣٣٣٩..........
...................ہر انسان کی سوچ مختلف ہوتی ہے ...اپنی راۓ کو کسی پر مسلط نہیں کیا جا سکتا .....اور نہ کسی کو عھدے کے لحاظ سے پرکھنا جایز ہے ..یا جس کے پاس عھدہ ہے اس کی بات صہی ہے ..اینکر یا کالم نگار جو کہتا اور لکھتا ہے ..وہ کوئی حدیث نہیں کہ ہم اس کو سچ جانیں یا اس پر عمل کریں ..میں آزادی اظھار اور اخلاقی طور پر اتنا ہی پابند ہوں ..جس سے اسلام کے اندر دخل اندازی نہ ہونے پاۓ اور ملکی سالمیت پر کوئی آنچ نہ آنے پاۓ ...ہم لوگ جو میڈیا کے ٹھیکیدار بنے ہووے ہیں .اینکر یا کالم نگار بننے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ ہم کوئی بھوت بڑے تیس مار خان بن چکے ہیں ..اور ہم کہتے ہیں ووہی ہو ...اور اسی طرح حکمران کی سوچ بھی فرعون سے کم نہیں ہے ..انسان کوئی بھی پیدایشی برا نہیں ہوتا ..اس کو حکمرانوں کے چال چلن برا بنا دیتے ہیں ..کوئی باغی ہو جاتا ہے اور کوئی چمچہ ...کچھ قصیدہ لکھنے والے اور کچھ حقیقت لکھنے والے ..کچھ پر قدگن اور کچھ پر پلاٹ نچھاور ...یہ ہے اس ملک کا نظم ..اور ہم جیسوں کو کہا جاتا ہے کہ آپ کو اخلاق اور تمیز نہیں ہے ..خود ریمنڈ ڈیوس کو راتوں رات عدالت لگا کر جھوڑ دیا جاتا ہے .اس وقت لکھنے والوں اور حکمرانوں کی غیرت کہاں جاتی ہے ..غدار حسین حقانی کو پروٹوکول دے کر رکھا جاتا ہے پھر کچھ بغیرتوں کے شور مچانے پر اور عدالت پر دباؤ ڈالنے پر اس کو باہر جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے ....اس کو انصاف کہوں .یا غداری .یا بغیرتی ...انڈیا ہمارے ملک کو دہشت گردوں کی آماجگاہ بنا چکا ہے ..میرا حکمران خاموش ہے ..انڈیا ہمارا پانی کونٹرول کر چکا ہے ..اس کو حکمران کی بے حسی کہوں .غداری کہوں .یا بغیرتی کہوں ..اس جنگ میں ڈالر کمانے والوں کو اور جنگ کو شروح کرنے والوں کو اور اس میں چھلانگ لگانے والوں کو غیرت مند کہوں تو ہی بتا دے ...ملک کا بیڑہ غرق کرنے والوں کو اور عالمی سازش کے اجنٹ کو غیرت مند کہوں تو ہی بتا دے ...اگر میرے بچے بھوک افلاس ..مہنگائی ..بیروزگاری اور بد امنی کی وجہ سے دہشت گرد بنتے جایں ...تو بتا دے میں حکمران کو غیرت مند لکھوں ..یا حکمران کا قصیدہ لکھوں یا ماتم کروں ...اگر میرے گھر میں تین عدد ماسٹر ڈگری ہولڈر ہوں ..اور سب بیروزگار ہوں ..تو بتا مجھ سے کیا توقوح کرتا ہے ..کس اخلاق کا تو مجھے درس دیتا ہے ..حکمران اور حکمرانوں کے گماشتوں کو بےغیرت نہ لکھوں تو کیا لکھوں ..جن کی اپنی دولت باہر کے ملکوں میں ہو ..تو وہ ملک کو قرضہ کشکول لے کر چلانا چاہتے ہوں اور باہر سے انویسٹمنٹ چاہتے ہوں ..ان کو غدار نہ لکھوں تو کیا لکھوں ...جو کمشن کو کھانا اور پاکستانی عوام کے خون کو لندن کے بنکوں میں جما کروانا اپنا حق سمجھتے ہوں ..بتا میں ان کو غدار نہ لکھوں تو کیا لکھوں ..انسان کوئی برا نہیں ہوتا نہ اس کی تحریر بری ہوتی ہے ..حالات و واقعات انسان کو پھسلنے پر مجبور کر دیتے ہیں ..ہم سب بکنے کو تیار ہیں ..ہو سکتا ہے ..کل کو میں بھی بک جاؤں ..پھر تمہاری طرح لوگوں کو نصیحت کرتا پھروں گا ..کہ ناامیدی گناہ ہے ..جمہوریت کو چلنے دو ..آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جاے گا ..کب تک انتظار کروں ..جب بچے ڈگریوں کو جلا دیں ..یا بھوک سے مر جائیں ..یا کسی دن کسی مقدمے میں جیل چلے جائیں ..اس دن کا انتظار کروں ....بتا تم روٹی کے لئے کتنا انتظار کر سکتے ہو ...مشورے دینا اور نصیحتیں کرنا آسان ہے ..اصل حقیقت تک پنچننا مشکل ہوتا ہے ..تم کیا سمجھتے ہو میرے سینے میں دل نہیں ہے ..کیا وہ دھڑکتا نہیں ہے ...بلکہ تم بھی حکمران کی طرح بے حس ہو چکے ہو ..کیونکہ تمہارے گھر میں ڈال روٹی ہے ......میں بے غیرت ..غدار کو ..بےغیرت غدار لکھتا ہوں ..تمہاری طرح حافظ سعید ..فرید پراچہ ..جاوید ہاشمی ..لیاقت بلوچ ..ڈاکٹر قدیر اور جنرل حمید گل کو غدار نہیں لکھتا ...وہ حکمران غدار اور بیغرت ہے ..جس کے پاس اختیارات ہیں ..وہ ملک کے سب کچھ کر سکتا ہے ..مگر اپنی کرسی کو بچانے کی خاطر کچھ نہیں کرتا ..وہ غدار ہے ..جو مراعات تو پاکستان سے لیتا ہے .مگر کام ملکی سالمیت کے خلاف کرتا ہے ....تیرے نزدیک میں لکھاری نہیں ہوں ..مگر میں ملکی سالمیت کے خلاف نہ لکھتا ہوں اور نہ مجھے کسی تمغے کی ضرورت ہے ..کہ میں قصیدہ لکھوں ...اس ملک میں ان کے بچوں کو نوکریاں دی جاتی ہیں جو قصیدہ خان ہیں ...یہ ہے تمہارے ملک کا بد ترین بےغیرت نظام ..گندہ اور غلیظ نظام اور بد ترین بےغیرت مفاہمت والی جمہوریت ......جس کو تم پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہو ..چاہے ملک کا مزید بیڑہ غرق ہو جاۓ ....آجکل بڑا لکھاری بڑی اخبار والا ہے یا پھر اینکر ہے ..اس کا بڑا نام ہے ..جس کے پیچھے ملک ریاض جیسی مافیا کا کردار ہو ...آجکل تو چنیل میں اور اخبار میں لکھنے کے لئے بھی کسی بڑے کی سفارش درکار ہے ....تم کو کس پاگل نے کہا ہے ..کہ میں لکھاری ہوں ..اور تم مجھ کو نصیحت کر رہے ہو ....برخوردار میں باغی ہوں اس بےغیرت نظام سے ...انقلاب چاہتا ہوں ..انقلاب کے لئے لکھتا ہوں ....اگر انقلاب نہیں آیا ..تو تم جیسے لوگ دیوار ہیں ...انقلاب پر لکھنے والا لکھاری نہیں ہوتا ..پاگل ہوتا ہے .. کیا جالب اور فیض پاگل تھے ..مجھے لفظوں کا سہارہ نہیں لینا ..اپنے ضمیر کی آواز تم تک پنچانا مقصود ہے ..تمہارے ضمیر کو جھنجھوڑنا مقصود ہے ..شاید کے اتر جاۓ تیرے دل میں میری یہ بات ...اللہ نہ کرے تجھے ان بےغیرت حکمرانوں سے کوئی کام پڑ جاۓ ...اللہ نہ کرے تیرے ساتھ کوئی ڈکیتی کا واقعہ ہو جاۓ ..اور پھر تمہاری فریاد سننے والا کوئی نہ ہو ...اور پھر تمہارے منہ سے بھی بےغیرت حکمران نکل جاۓ ....میرے جیسے لوگوں کے اتنے مسایل ہیں ..کہ تم میرے منہ سے صرف بےغیرت کا لفظ سن رہے ہو ....اگر میرے پاس کوئی اختیار ہو ..تو میں پہلی رات ہی سب چوروں .لٹیروں کو الٹا لٹکا کر پھانسی دے دوں ...اس ملک کا ایک ہی واحد حل ہے ..انقلاب..انقلاب...انقلاب...ورنہ میرے جیسے لوگوں کو تم کیا نصیحت کرو گے ...زیادہ سے زیادہ پھانسی پر لٹکا دو گے تو بڑے شوق سے لٹکا دو ...بغیرتوں کو بےغیرت کہنے والے ابھی اس دنیا میں اور بھی ماں کے لال ہیں ......تم خوش رہو ..اپنے حال میں ..مجھے تم جیسے بے حس کی شاگردی نہیں چاہئے ..........ہر انسان کو معاشرے کے خون خار بھیڑئے بدلنے پر مجبور کر دیتے ہیں ............شاید ایک وقت ایسا آ جاے ..کہ تم بھی انقلاب کی دعا مانگنے والے بن جاؤ ...........جاوید اقبال چیمہ ..میلان ..اطالیہ ..........٠٠٣٩..٣٢٠...٣٣٧...٣٣٣٩..........
No comments:
Post a Comment