.....................................انہونی پے انہونی ........................
................دیکھ میرے وطن میں کیسی کسی انہونیاں اور کہانیاں جنم لیتی ہیں ...کبھی تیل میں ملاوٹ ..کبھی چینی .مرچ میں ملاوٹ .کبھی حرام گوشت کھلانے . مردار کھلانے کی کہانیاں .کبھی قبر کی بے حرمتی .کبھی لاش کی بے حرمتی ...خیر اب تو رشتوں میں بھی ملاوٹ ہے ...ہر رشتہ مادیت پرستی کے راستے کی طرف جاتا نظر آتا ہے ..غرض کہ اتنی انہونیاں ہوتی جا رہی ہیں ..کہ اگر ایک ایک کو لکھنا چاہوں ..تو کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں ...ایک ایک سیاستدان ..اور ہر اینکر کے منہ سے نکلے ہوۓ ہر موتی پر کروڑوں ورد بھی کر دوں ..تو پھر بھی وہ موتی پاک صاف شاید نہ ہونے پاۓ ..ایک اینکر کہ رہا تھا ..کہ یورپ میں رہنے والے حرام کی کمائی جیب میں ڈالے ہلال گوشت کی دکانیں تلاش کرتے ہیں ..واہ اینکر صاحب تمہاری سوچ اور لاعلمی پر لعنت ..اگر میں یورپ اور پاکستانی معاشرے پر لکھنا شروع کر دوں ..تو موازنے پر پاکستان بھوت پیچھے رہ جاۓ گا ...اور میرے اوپر فتوے لگ جانے کا اندیشہ ہے ...ویسے میں نے اپنی کتابوں میں کافی کچھ اس قوم کے لئے لکھا ہوا ہے ..میری ویب پر وزٹ کر لیں ..کل بھی ایک انہونی ہوئی ...ایک اینکر ایک انسانی حقوق کی علمبردار سے سوال کر رہا تھا کہ دریاۓ راوی میں ایک باپ اپنی بیٹی کو بے رحم پانی کی موجوں میں ڈال کر چلا گیا ....انسانی حقوق والی نے ساری تقریر عورت کے حقوق پر کر دی ..مگر اینکر بھی شاید بےحسی کا مظاھرہ کس رشتے کی بنیاد پر کر گیا ..ورنہ اصل حقیقت کا کس کو علم نہ تھا ..ہم بھی حکمران کی طرح بے حس ہوتے جا رہے ہیں اور دوسرے رخ کو اجاگر کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں یا نہ جانے کس کو خوش کرنا مقصود ہوتا ہے ....کیونکہ اگر باپ کی آہوزاری پر بھی نظر رکھیں تو اصل حقیقت غربت بھی ہے ..اگر آپ اس کو جہالت یا کوئی بھی رنگ دے لیں تو مجھے کوئی عتراض نہ ہے ..مگر ایک بات میں واضح کر دینا چاہتا ہوں ...کہ اچھے برے لوگ ہر جگہ پر ہیں ...مگر بات حکمران کی نا اہلی پر جا کر ختم ہوتی ہے ...حکمران کی بد دیانتی .اقرباپروری اور ہر قانون کو گھر کی لونڈی سمجھنے پر ختم ہوتی ہے ...معاشرے کا بگاڑ صرف عوام کا فعل نہیں ہے ..اس میں حکمران کی بے راہروی مکمل طور پر شامل ہے ...٦٥ سالوں سے حکمران نے کیا ڈیلیور کیا ہے ..سکولوں میں گدھے باندھے ہیں ..غربت دی ہے ..جہالت دی ہے .مہنگائی بے روزگاری اور لا قانونیت دی ہے ..سارے بگاڑ کی جڑھ پیٹ کی آگ ہے ..بھوک و ننگ ہے ..جس کے گھر دانے اس کے کھلے بھی سیانے ....جن گھروں میں خوشحالی ہے ..وہاں جھگڑے کم ہوتے ہیں ..غریب کو بھی اگر عزت کی روٹی دو وقت کی ملتی رہے اور حکمران کی طرف سے انصاف ملنے کی امید ہو ..تو ایسے واقعات اور دوسرے جرائم میں کمی ہو سکتی ہے ....بات قانون اور گرفت کی ہے ..یورپ میں پوری دنیا سے کن ٹوٹے بدمعاش آتے ہیں ..مگر قانون کی گرفت ان کے کن کاٹ دیتی ہے ..یہاں بھی دنیا کا ہر برا کام ہوتا ہے ..مگر وہ انہونیاں یہاں نہیں ہوتیں جو پاکستان میں ہوتی ہیں ...یہاں نہ کوئی تیرہ سال کی بچی سے زنا کرتا ہے اور نہ باپ اپنے بیٹے کا اور نہ بیٹا اپنے باپ کا مادیت پرستی میں گلہ کاٹتا ہے ......
...................جاوید اقبال چیمہ ...میلان......اطالیہ .......
................دیکھ میرے وطن میں کیسی کسی انہونیاں اور کہانیاں جنم لیتی ہیں ...کبھی تیل میں ملاوٹ ..کبھی چینی .مرچ میں ملاوٹ .کبھی حرام گوشت کھلانے . مردار کھلانے کی کہانیاں .کبھی قبر کی بے حرمتی .کبھی لاش کی بے حرمتی ...خیر اب تو رشتوں میں بھی ملاوٹ ہے ...ہر رشتہ مادیت پرستی کے راستے کی طرف جاتا نظر آتا ہے ..غرض کہ اتنی انہونیاں ہوتی جا رہی ہیں ..کہ اگر ایک ایک کو لکھنا چاہوں ..تو کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں ...ایک ایک سیاستدان ..اور ہر اینکر کے منہ سے نکلے ہوۓ ہر موتی پر کروڑوں ورد بھی کر دوں ..تو پھر بھی وہ موتی پاک صاف شاید نہ ہونے پاۓ ..ایک اینکر کہ رہا تھا ..کہ یورپ میں رہنے والے حرام کی کمائی جیب میں ڈالے ہلال گوشت کی دکانیں تلاش کرتے ہیں ..واہ اینکر صاحب تمہاری سوچ اور لاعلمی پر لعنت ..اگر میں یورپ اور پاکستانی معاشرے پر لکھنا شروع کر دوں ..تو موازنے پر پاکستان بھوت پیچھے رہ جاۓ گا ...اور میرے اوپر فتوے لگ جانے کا اندیشہ ہے ...ویسے میں نے اپنی کتابوں میں کافی کچھ اس قوم کے لئے لکھا ہوا ہے ..میری ویب پر وزٹ کر لیں ..کل بھی ایک انہونی ہوئی ...ایک اینکر ایک انسانی حقوق کی علمبردار سے سوال کر رہا تھا کہ دریاۓ راوی میں ایک باپ اپنی بیٹی کو بے رحم پانی کی موجوں میں ڈال کر چلا گیا ....انسانی حقوق والی نے ساری تقریر عورت کے حقوق پر کر دی ..مگر اینکر بھی شاید بےحسی کا مظاھرہ کس رشتے کی بنیاد پر کر گیا ..ورنہ اصل حقیقت کا کس کو علم نہ تھا ..ہم بھی حکمران کی طرح بے حس ہوتے جا رہے ہیں اور دوسرے رخ کو اجاگر کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں یا نہ جانے کس کو خوش کرنا مقصود ہوتا ہے ....کیونکہ اگر باپ کی آہوزاری پر بھی نظر رکھیں تو اصل حقیقت غربت بھی ہے ..اگر آپ اس کو جہالت یا کوئی بھی رنگ دے لیں تو مجھے کوئی عتراض نہ ہے ..مگر ایک بات میں واضح کر دینا چاہتا ہوں ...کہ اچھے برے لوگ ہر جگہ پر ہیں ...مگر بات حکمران کی نا اہلی پر جا کر ختم ہوتی ہے ...حکمران کی بد دیانتی .اقرباپروری اور ہر قانون کو گھر کی لونڈی سمجھنے پر ختم ہوتی ہے ...معاشرے کا بگاڑ صرف عوام کا فعل نہیں ہے ..اس میں حکمران کی بے راہروی مکمل طور پر شامل ہے ...٦٥ سالوں سے حکمران نے کیا ڈیلیور کیا ہے ..سکولوں میں گدھے باندھے ہیں ..غربت دی ہے ..جہالت دی ہے .مہنگائی بے روزگاری اور لا قانونیت دی ہے ..سارے بگاڑ کی جڑھ پیٹ کی آگ ہے ..بھوک و ننگ ہے ..جس کے گھر دانے اس کے کھلے بھی سیانے ....جن گھروں میں خوشحالی ہے ..وہاں جھگڑے کم ہوتے ہیں ..غریب کو بھی اگر عزت کی روٹی دو وقت کی ملتی رہے اور حکمران کی طرف سے انصاف ملنے کی امید ہو ..تو ایسے واقعات اور دوسرے جرائم میں کمی ہو سکتی ہے ....بات قانون اور گرفت کی ہے ..یورپ میں پوری دنیا سے کن ٹوٹے بدمعاش آتے ہیں ..مگر قانون کی گرفت ان کے کن کاٹ دیتی ہے ..یہاں بھی دنیا کا ہر برا کام ہوتا ہے ..مگر وہ انہونیاں یہاں نہیں ہوتیں جو پاکستان میں ہوتی ہیں ...یہاں نہ کوئی تیرہ سال کی بچی سے زنا کرتا ہے اور نہ باپ اپنے بیٹے کا اور نہ بیٹا اپنے باپ کا مادیت پرستی میں گلہ کاٹتا ہے ......
...................جاوید اقبال چیمہ ...میلان......اطالیہ .......
No comments:
Post a Comment