............................شیر کی ١٠٠ دن کی زندگی .....................
...........جو لوگ جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں وہ اپنی جگہ پر شاید سچے ہوں ..مگر پاکستانی جمہوریت پر لعنت بھیجنے والوں میں بھی کمی نہیں آئی بلکہ فرسٹریشن - اکتاہٹ اور ناامیدی میں اضافہ ہوا ہے ..اور جو لوگ پرویز مشرف اور زرداری کی جمہوریت سے تنگ تھے وہ شیر کی ١٠٠ دن کی کارکردگی سے نہ تو مطمئن ہیں بلکہ بد دل ہو چکے ہیں ....شیر کی زندگی سمجھوتوں پر چل رہی ہے ..عالمی طاقتوں اور دوستوں اور بیوروکریسی کو خوش رکھنے پر چل رہی ہے اور ٦٥ سالوں کی تاریخ کے مطابق غریب کی زندگی اجیرن کر دی گئی ہے ...١٠٠ دن کے اندر مشرف - زرداری اور الطاف بھائی کے ساتھ سمجھوتے کئے گہے ..احتساب اور انصاف کا گلہ گھونٹا گیا ..کیانی صاحب کو پردے کے پیچھے سے راضی کیا گیا ..پرانی ڈگر پر چل کر وفاداروں کو چن چن کر محکموں کا سربراہ لگایا گیا اور ابھی یہ مشن جاری ہے ..اور پہلے کی طرح سینارٹی کو پش پشت ڈال کر چمچے تلاش کرنے کی کوشش جاری ہے ...١٠٠ دن کی کارکردگی میں کرپشن ..مہنگائی ..بیروزگاری ..لوٹ مار اور بجلی .گیس .پیٹرول میں اضافہ سرے فہرست ہے ...کوئی نظام نہیں بدلہ اور نہ بدلنے کی طرف گامزن ہیں ....تھانے - پٹواری - کچہری - سب کے سب پہلے کی طرح اپنی کرپشن کی انتہا میں ہیں ....لاکھوں پْرانی تھانے کی رپورٹ پہلے کی طرح گل سڑ رہی ہیں ...کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ..شریف برادران کی تمام تر دماغی قوت اس نقطے پر خرچ ہو رہی ہے کہ کس طرح اقتدار کو دوام بخشا جاۓ ..کس طرح طاقت کا سر چشمہ کوئی ضیاء بٹ کی طرح لانے کی دوبارہ کوشش کی جاۓ ..تاکہ خلافت کا خواب پورا کیا جا سکے ...اور کس طرح پلاننگ کے تحت پہلے چار سال عوام کا کچومر نکالا جاۓ اور آخری سال بینظیر سکیم کی طرح خزانے کا بیڑہ غرق کر کے اپنوں میں ریوڑیاں بانٹی جایں ..تاکہ کوئی لیپ ٹاپ وغیرہ کی طرح رشوت عوامی خزانے سے دے کر پھر ووٹ خریدے جایں ..اب تک زرداری کی ملی بھگت سے باری باری خزانے کو لوٹنے اور عوام کو بکرے کی طرح ذبح کیا گیا ہے اور مزید یہ کام جاری رہے گا ..کیونکہ انصاف کے ساتھ احتساب کرنے والوں نے نیپ کا چیئرمین اپنی مرضی کا لگا کر انصاف کا حساب برابر کر دیا گیا ہے ....اب عمران خان کو مجبور کر دیا گیا ہے اور مجبور کر کے کہا جاۓ گا کہ کر لو جو کرنا ہے ....اور عمران خان بھی آخر کار یہ بات سمجھ جاۓ گا کہ اس ملک میں یہ بےغیرت جمہوریت نظام نہیں بدل سکتی ...کیونکہ جس طرح دھاندلی کے مناظر منظر عام پر آ چکے ہیں اور ہر چہرہ عیاں ہو رہا ہے ...مہذب معاشرہ مہذب جمہوریت اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ الیکشن ایک بار پھر فوج کی موجودگی میں جلد از جلد کروا دئے جایں ...مگر منافق حکمران یہ کبھی بھی نہیں ہونے دے گا ..کیونکہ ایسا ان ملکوں میں ہوتا ہے جو مہذب ہوتے ہیں ..مگر ہم اس الفاظی جملوں سے بھی بھوت آگے نکل چکے ہیں ...ہم بھوک ننگ - اغوا - ڈاکوں اور قتل و غارت گری میں مر رہے ہیں اور ہمارا حکمران ہم کو آزادی کا اور امید کا اور صبر کا لیکچر دیتا ہے ......١٠٠ دن کی کارکردگی کو اگر تفصیل سے ایک ایک کارکردگی کے پس منظر میں جاؤں تو کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں ...کہ کیوں اداروں کو فروخت کرنے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے ..کس طرح اور کیوں نندی پر پراجیکٹ پر کرپشن کی گئی ....کس طرح اور کیوں حمزہ شہباز ہزاروں گاڑیوں کی درآمد کر رہا ہے ...یہ سب میرے حکمران کے نزدیک قصے کہانیاں ہیں ..کیونکہ میں نیپ کا چیئرمین نہیں ہوں ..ورنہ حسین حقانی کب کا ملک واپس لا کر حساب اور انصاف کیا جا چکا ہوتا ..نہ مشرف کی ضمانت ہوتی اور اب تک زرداری کی تمام کرپشن عوام کے سامنے بھی آ چکی ہوتی ....یہ ١٠٠ دن کی کارکردگی شیر کو زیب نہیں دیتی . زرداری کے نعرے تو لگتے لگتے ٹل گہے تھے ...مگر ..وہ وقت اب قریب ہے کہ شیر کے نعرے ضرور لگیں گے ...اگر شیر اپنے شکار کے لئے بھوکا ہے تو وہ بھوک مٹانے کے لئے دوڑے گا مگر آخر کار عوام جیت جایں گے .. جب عوام زندگی بچانے کے لئے دوڑیں گے انشااللہ .....
........جاوید اقبال چیمہ....میلان ....اطالیہ ......١٠...١٠...٢٠١٣
...........جو لوگ جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں وہ اپنی جگہ پر شاید سچے ہوں ..مگر پاکستانی جمہوریت پر لعنت بھیجنے والوں میں بھی کمی نہیں آئی بلکہ فرسٹریشن - اکتاہٹ اور ناامیدی میں اضافہ ہوا ہے ..اور جو لوگ پرویز مشرف اور زرداری کی جمہوریت سے تنگ تھے وہ شیر کی ١٠٠ دن کی کارکردگی سے نہ تو مطمئن ہیں بلکہ بد دل ہو چکے ہیں ....شیر کی زندگی سمجھوتوں پر چل رہی ہے ..عالمی طاقتوں اور دوستوں اور بیوروکریسی کو خوش رکھنے پر چل رہی ہے اور ٦٥ سالوں کی تاریخ کے مطابق غریب کی زندگی اجیرن کر دی گئی ہے ...١٠٠ دن کے اندر مشرف - زرداری اور الطاف بھائی کے ساتھ سمجھوتے کئے گہے ..احتساب اور انصاف کا گلہ گھونٹا گیا ..کیانی صاحب کو پردے کے پیچھے سے راضی کیا گیا ..پرانی ڈگر پر چل کر وفاداروں کو چن چن کر محکموں کا سربراہ لگایا گیا اور ابھی یہ مشن جاری ہے ..اور پہلے کی طرح سینارٹی کو پش پشت ڈال کر چمچے تلاش کرنے کی کوشش جاری ہے ...١٠٠ دن کی کارکردگی میں کرپشن ..مہنگائی ..بیروزگاری ..لوٹ مار اور بجلی .گیس .پیٹرول میں اضافہ سرے فہرست ہے ...کوئی نظام نہیں بدلہ اور نہ بدلنے کی طرف گامزن ہیں ....تھانے - پٹواری - کچہری - سب کے سب پہلے کی طرح اپنی کرپشن کی انتہا میں ہیں ....لاکھوں پْرانی تھانے کی رپورٹ پہلے کی طرح گل سڑ رہی ہیں ...کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ..شریف برادران کی تمام تر دماغی قوت اس نقطے پر خرچ ہو رہی ہے کہ کس طرح اقتدار کو دوام بخشا جاۓ ..کس طرح طاقت کا سر چشمہ کوئی ضیاء بٹ کی طرح لانے کی دوبارہ کوشش کی جاۓ ..تاکہ خلافت کا خواب پورا کیا جا سکے ...اور کس طرح پلاننگ کے تحت پہلے چار سال عوام کا کچومر نکالا جاۓ اور آخری سال بینظیر سکیم کی طرح خزانے کا بیڑہ غرق کر کے اپنوں میں ریوڑیاں بانٹی جایں ..تاکہ کوئی لیپ ٹاپ وغیرہ کی طرح رشوت عوامی خزانے سے دے کر پھر ووٹ خریدے جایں ..اب تک زرداری کی ملی بھگت سے باری باری خزانے کو لوٹنے اور عوام کو بکرے کی طرح ذبح کیا گیا ہے اور مزید یہ کام جاری رہے گا ..کیونکہ انصاف کے ساتھ احتساب کرنے والوں نے نیپ کا چیئرمین اپنی مرضی کا لگا کر انصاف کا حساب برابر کر دیا گیا ہے ....اب عمران خان کو مجبور کر دیا گیا ہے اور مجبور کر کے کہا جاۓ گا کہ کر لو جو کرنا ہے ....اور عمران خان بھی آخر کار یہ بات سمجھ جاۓ گا کہ اس ملک میں یہ بےغیرت جمہوریت نظام نہیں بدل سکتی ...کیونکہ جس طرح دھاندلی کے مناظر منظر عام پر آ چکے ہیں اور ہر چہرہ عیاں ہو رہا ہے ...مہذب معاشرہ مہذب جمہوریت اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ الیکشن ایک بار پھر فوج کی موجودگی میں جلد از جلد کروا دئے جایں ...مگر منافق حکمران یہ کبھی بھی نہیں ہونے دے گا ..کیونکہ ایسا ان ملکوں میں ہوتا ہے جو مہذب ہوتے ہیں ..مگر ہم اس الفاظی جملوں سے بھی بھوت آگے نکل چکے ہیں ...ہم بھوک ننگ - اغوا - ڈاکوں اور قتل و غارت گری میں مر رہے ہیں اور ہمارا حکمران ہم کو آزادی کا اور امید کا اور صبر کا لیکچر دیتا ہے ......١٠٠ دن کی کارکردگی کو اگر تفصیل سے ایک ایک کارکردگی کے پس منظر میں جاؤں تو کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں ...کہ کیوں اداروں کو فروخت کرنے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے ..کس طرح اور کیوں نندی پر پراجیکٹ پر کرپشن کی گئی ....کس طرح اور کیوں حمزہ شہباز ہزاروں گاڑیوں کی درآمد کر رہا ہے ...یہ سب میرے حکمران کے نزدیک قصے کہانیاں ہیں ..کیونکہ میں نیپ کا چیئرمین نہیں ہوں ..ورنہ حسین حقانی کب کا ملک واپس لا کر حساب اور انصاف کیا جا چکا ہوتا ..نہ مشرف کی ضمانت ہوتی اور اب تک زرداری کی تمام کرپشن عوام کے سامنے بھی آ چکی ہوتی ....یہ ١٠٠ دن کی کارکردگی شیر کو زیب نہیں دیتی . زرداری کے نعرے تو لگتے لگتے ٹل گہے تھے ...مگر ..وہ وقت اب قریب ہے کہ شیر کے نعرے ضرور لگیں گے ...اگر شیر اپنے شکار کے لئے بھوکا ہے تو وہ بھوک مٹانے کے لئے دوڑے گا مگر آخر کار عوام جیت جایں گے .. جب عوام زندگی بچانے کے لئے دوڑیں گے انشااللہ .....
........جاوید اقبال چیمہ....میلان ....اطالیہ ......١٠...١٠...٢٠١٣
No comments:
Post a Comment