.......................ملالا چند گماشتوں کے ہاتھوں کھیل رہی ہے ..................
.............میں نے آج تک ملالا کے بارے کچھ نہیں لکھا اور نہ لکھنا چاہتا تھا ..کیونکہ مجھے اس ڈرامہ کے کرداروں پر شروع سے ہی شک تھا ...اس لئے نہ میں نے اس کے حق میں اور نہ اس کے خلاف لکھا ....مگر اس کی بھوت زیادہ مشہوری اور حد سے زیادہ پزیرائی پر مجھے اس لئے حیرانی ہوئی ..کہ آجکل کے دور میں مشہور ہونے کے لئے اور راتوں رات دولت مند بننے کے لئے اور یورپ کی. دنیا میں نام کمانے کے لئے چند بغیرتی کے پیمانے ہیں اگر آپ ضمیر فروش ہیں .غدار ہیں ..اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں ..میوزک اور فیشن شو کروا سکتے ہیں یا ماڈل بننے کی خواہش رکھتے ہیں ..یا آپ پاکستانی یا مسلمان عورت کو یورپ جیسی آزادی دینے کے حق میں کالم لکھو یا لیکچر دو ....یا پھر میڈیا تم پر مہربان ہو جاۓ ..مگر میڈیا بھی ایسے ہی مہربان نہیں ہوتا ..وہ بھی ڈکٹیشن لیتا ہے ....اس کو ڈکٹیشن ملتی ہے ڈالر کی شکل میں ..پھر وہ اپنے اینکر حضرات کو حکم دیتا ہے ..کہ فلاں کو بلاؤ ..یا فلاں شخسیت پر پروگرام کرو ..جس طرح ملالا کے ڈرامہ میں میڈیا نے کردار ادا کیا ..وہ آپ کے سامنے ہے ...کہ کس طرح چنیل کے مالکان نے اپنے ہاں حکم دیا کہ ملالا پر پروگرام کرو ...کس طرح اینکر حضرات کو دوبئی بلا کر کہا گیا کہ ملالا پر پروگرام کرو ......بلکہ حیرانگی کی بات ہے کہ ایک چنیل والے نے تین مہینے سے ملازموں کو تنخواہ بھی نہیں دی تھی تو اس نے دوبئی بلا کر جب حکم دیا تھا تو یہ بھی کہ تھا کہ ملالا پر پروگرام کرنے کے بعد ملازموں کو ادائگی کر دی جاۓ گی ..تو ایسا ہی ہوا ....میں تیس سال سے لکھ رہا ہوں ..١٢ کتابیں بھی چھپوا چکا ہوں ..میڈیا مہربان نہیں ہے اس لئے میں ہیرو نہیں زیرو ہوں ...نہ میں اینکر بن سکا نہ کروڑ پتی ...کیونکہ ٤٥ سالوں سے صرف مزدوری کر رہا ہوں .......اگر ملالا کے نام سے کتاب نہ لکھی جاتی تو بہتر تھا ...نہ ملالا کے چہرے سے نقاب ہٹتا اور نہ ملالا کا اصل چہرہ میرے سامنے آتا ...اور نہ میں پریشان ہوتا .....یہاں میڈیا اور مافیا جس پر مہربان ووہی ہیرو .....مگر ملالا کے ڈیڈی نواز شریف کا کیا بنے گا جو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا ڈیڈی تو نہ بن سکا .....ملالا کی کتاب سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ سلمان رشدی بن جاؤ ....پیسہ کماؤ ..نمبر بناؤ ....مشہور ہو جاؤ ...دنیا کا ہر میڈل اپنے سینے پر سجاتے جاؤ .....طالبان نے جو ظلم کیا سو کیا ..مگر ملالا کا باپ جو عالمی گوماشتوں کے ہاتھوں کھیل کر اپنی پھول جیسی بچی کے ساتھ ظلم کر چکا ہے اور مزید کرے گا .....وہ آہستہ آہستہ تم بھی دیکھو میں بھی دیکھوں گا .....اگر میڈیا کو کتاب پر تبصرے سے روک دیا گیا تو اور بات ہے ..ورنہ یہ کتاب مسلمانوں اور خاص کر پاکستانیوں کے لئے ایک متنازعہ کتاب ثابت ہو گی ....کیونکہ لکھنے اور لکھانے والا باپ اور نام بیچاری ملالا کا .......میں اوریہ مقبول جان اور انصار عباسی سے بھی متفق ہوں ..مگر دوسرے غیر ذمےدار تبصرہ نگاروں سے متفق نہیں ہوں جو دوغلی .منافقانہ پالیسی اختیار کرتے ہوۓ یہ کہتے ہیں کہ کتاب میں ایسی کوئی بات نہیں ہے مگر اس کتاب کو پاکستان نہیں آنا چاہئے ..اس منطق کو میں نہیں سمجھ سکا اگر آپ سمجھ گہے ہیں تو قوم کو اگاہ کر دیں .....میں تو بار بار ایک ہی عرض کر رہا ہوں ..کہ ہماری تمام برائیوں کی جڑھ اسلام سے دوری کا نتیجہ ہے ....نا اہل .کرپٹ ..بد دیانت حکمران ..غلط فرسودہ . دقیانوسی نظام کی وجہ سے ہم پوری دنیا میں تماشہ بن چکے ہیں ...ہم زوال کی طرف گامزن ہیں ہمارہ معاشرہ تباہ ہو چکا ہے .....یہاں صفائی کی ضرورت ہے نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ..یہ کام اب صرف انقلاب سے ممکن ہے جمہوریت سے نہیں ہو گا ...کیونکہ جمہوریت کے ان ٹھیکیداروں کی وجہ سے ہی ہم برباد ہوۓ ہیں ......جتنا خون ہم ہر روز بھا رہے ہیں ..اگر میرا حکمران نظم تبدیل کر دیتا تو ملک میں کب کا سبز انقلاب آ چکا ہوتا .............اسی لئے اپنی کتاب میں حکمران سے کہا .....
..........لانا ہے انقلاب تو پھر خون بہانا کوئی ضروری ہے
.........بدلنا ہے نظام تو پھر بہانے بنانا کوئی ضروری ہے
..........جب یقین ہے کہ موت نے اک دن آنا ہے
.........تو پھر زندگی کا جشن منانا کوئی ضروری ہے
....................جاوید اقبال چیمہ .....میلان ..اطالیہ
.............میں نے آج تک ملالا کے بارے کچھ نہیں لکھا اور نہ لکھنا چاہتا تھا ..کیونکہ مجھے اس ڈرامہ کے کرداروں پر شروع سے ہی شک تھا ...اس لئے نہ میں نے اس کے حق میں اور نہ اس کے خلاف لکھا ....مگر اس کی بھوت زیادہ مشہوری اور حد سے زیادہ پزیرائی پر مجھے اس لئے حیرانی ہوئی ..کہ آجکل کے دور میں مشہور ہونے کے لئے اور راتوں رات دولت مند بننے کے لئے اور یورپ کی. دنیا میں نام کمانے کے لئے چند بغیرتی کے پیمانے ہیں اگر آپ ضمیر فروش ہیں .غدار ہیں ..اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں ..میوزک اور فیشن شو کروا سکتے ہیں یا ماڈل بننے کی خواہش رکھتے ہیں ..یا آپ پاکستانی یا مسلمان عورت کو یورپ جیسی آزادی دینے کے حق میں کالم لکھو یا لیکچر دو ....یا پھر میڈیا تم پر مہربان ہو جاۓ ..مگر میڈیا بھی ایسے ہی مہربان نہیں ہوتا ..وہ بھی ڈکٹیشن لیتا ہے ....اس کو ڈکٹیشن ملتی ہے ڈالر کی شکل میں ..پھر وہ اپنے اینکر حضرات کو حکم دیتا ہے ..کہ فلاں کو بلاؤ ..یا فلاں شخسیت پر پروگرام کرو ..جس طرح ملالا کے ڈرامہ میں میڈیا نے کردار ادا کیا ..وہ آپ کے سامنے ہے ...کہ کس طرح چنیل کے مالکان نے اپنے ہاں حکم دیا کہ ملالا پر پروگرام کرو ...کس طرح اینکر حضرات کو دوبئی بلا کر کہا گیا کہ ملالا پر پروگرام کرو ......بلکہ حیرانگی کی بات ہے کہ ایک چنیل والے نے تین مہینے سے ملازموں کو تنخواہ بھی نہیں دی تھی تو اس نے دوبئی بلا کر جب حکم دیا تھا تو یہ بھی کہ تھا کہ ملالا پر پروگرام کرنے کے بعد ملازموں کو ادائگی کر دی جاۓ گی ..تو ایسا ہی ہوا ....میں تیس سال سے لکھ رہا ہوں ..١٢ کتابیں بھی چھپوا چکا ہوں ..میڈیا مہربان نہیں ہے اس لئے میں ہیرو نہیں زیرو ہوں ...نہ میں اینکر بن سکا نہ کروڑ پتی ...کیونکہ ٤٥ سالوں سے صرف مزدوری کر رہا ہوں .......اگر ملالا کے نام سے کتاب نہ لکھی جاتی تو بہتر تھا ...نہ ملالا کے چہرے سے نقاب ہٹتا اور نہ ملالا کا اصل چہرہ میرے سامنے آتا ...اور نہ میں پریشان ہوتا .....یہاں میڈیا اور مافیا جس پر مہربان ووہی ہیرو .....مگر ملالا کے ڈیڈی نواز شریف کا کیا بنے گا جو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا ڈیڈی تو نہ بن سکا .....ملالا کی کتاب سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ سلمان رشدی بن جاؤ ....پیسہ کماؤ ..نمبر بناؤ ....مشہور ہو جاؤ ...دنیا کا ہر میڈل اپنے سینے پر سجاتے جاؤ .....طالبان نے جو ظلم کیا سو کیا ..مگر ملالا کا باپ جو عالمی گوماشتوں کے ہاتھوں کھیل کر اپنی پھول جیسی بچی کے ساتھ ظلم کر چکا ہے اور مزید کرے گا .....وہ آہستہ آہستہ تم بھی دیکھو میں بھی دیکھوں گا .....اگر میڈیا کو کتاب پر تبصرے سے روک دیا گیا تو اور بات ہے ..ورنہ یہ کتاب مسلمانوں اور خاص کر پاکستانیوں کے لئے ایک متنازعہ کتاب ثابت ہو گی ....کیونکہ لکھنے اور لکھانے والا باپ اور نام بیچاری ملالا کا .......میں اوریہ مقبول جان اور انصار عباسی سے بھی متفق ہوں ..مگر دوسرے غیر ذمےدار تبصرہ نگاروں سے متفق نہیں ہوں جو دوغلی .منافقانہ پالیسی اختیار کرتے ہوۓ یہ کہتے ہیں کہ کتاب میں ایسی کوئی بات نہیں ہے مگر اس کتاب کو پاکستان نہیں آنا چاہئے ..اس منطق کو میں نہیں سمجھ سکا اگر آپ سمجھ گہے ہیں تو قوم کو اگاہ کر دیں .....میں تو بار بار ایک ہی عرض کر رہا ہوں ..کہ ہماری تمام برائیوں کی جڑھ اسلام سے دوری کا نتیجہ ہے ....نا اہل .کرپٹ ..بد دیانت حکمران ..غلط فرسودہ . دقیانوسی نظام کی وجہ سے ہم پوری دنیا میں تماشہ بن چکے ہیں ...ہم زوال کی طرف گامزن ہیں ہمارہ معاشرہ تباہ ہو چکا ہے .....یہاں صفائی کی ضرورت ہے نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ..یہ کام اب صرف انقلاب سے ممکن ہے جمہوریت سے نہیں ہو گا ...کیونکہ جمہوریت کے ان ٹھیکیداروں کی وجہ سے ہی ہم برباد ہوۓ ہیں ......جتنا خون ہم ہر روز بھا رہے ہیں ..اگر میرا حکمران نظم تبدیل کر دیتا تو ملک میں کب کا سبز انقلاب آ چکا ہوتا .............اسی لئے اپنی کتاب میں حکمران سے کہا .....
..........لانا ہے انقلاب تو پھر خون بہانا کوئی ضروری ہے
.........بدلنا ہے نظام تو پھر بہانے بنانا کوئی ضروری ہے
..........جب یقین ہے کہ موت نے اک دن آنا ہے
.........تو پھر زندگی کا جشن منانا کوئی ضروری ہے
....................جاوید اقبال چیمہ .....میلان ..اطالیہ
No comments:
Post a Comment