Mission


Inqelaab E Zamana

About Me

My photo
I am a simple human being, down to earth, hunger, criminal justice and anti human activities bugs me. I hate nothing but discrimination on bases of color, sex and nationality on earth as I believe We all are common humans.

Sunday, October 27, 2013

.......................ملالا چند گماشتوں کے ہاتھوں کھیل رہی ہے ..................
.............میں نے آج تک ملالا کے بارے کچھ نہیں لکھا اور نہ لکھنا چاہتا تھا ..کیونکہ  مجھے اس ڈرامہ کے کرداروں پر شروع سے ہی شک تھا ...اس لئے نہ میں نے اس کے حق میں اور نہ اس کے خلاف لکھا ....مگر اس کی بھوت زیادہ مشہوری اور حد سے زیادہ پزیرائی پر مجھے اس لئے حیرانی ہوئی ..کہ آجکل کے دور میں مشہور ہونے کے لئے اور راتوں رات دولت مند بننے کے لئے اور یورپ کی. دنیا میں نام کمانے کے لئے چند بغیرتی کے پیمانے ہیں اگر آپ ضمیر فروش ہیں  .غدار ہیں ..اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں ..میوزک اور فیشن شو کروا سکتے ہیں یا ماڈل بننے کی خواہش رکھتے ہیں ..یا آپ پاکستانی یا مسلمان عورت  کو یورپ جیسی آزادی دینے کے حق میں کالم لکھو یا لیکچر دو ....یا پھر میڈیا تم پر مہربان ہو جاۓ ..مگر میڈیا بھی ایسے ہی مہربان نہیں ہوتا ..وہ بھی ڈکٹیشن لیتا ہے ....اس کو ڈکٹیشن ملتی ہے ڈالر کی شکل میں ..پھر وہ اپنے اینکر حضرات کو حکم دیتا ہے ..کہ فلاں کو بلاؤ ..یا فلاں شخسیت پر پروگرام کرو ..جس طرح ملالا کے ڈرامہ میں میڈیا نے کردار ادا کیا ..وہ آپ کے سامنے ہے ...کہ کس طرح چنیل کے مالکان نے اپنے ہاں حکم دیا کہ ملالا پر پروگرام کرو ...کس طرح اینکر حضرات کو دوبئی بلا کر کہا گیا کہ ملالا پر پروگرام کرو ......بلکہ حیرانگی کی بات ہے کہ ایک چنیل والے نے تین مہینے سے ملازموں کو تنخواہ بھی نہیں دی تھی تو اس نے دوبئی بلا کر جب حکم دیا تھا تو یہ بھی کہ تھا کہ ملالا پر پروگرام کرنے کے بعد ملازموں کو ادائگی کر دی جاۓ گی ..تو ایسا ہی ہوا ....میں تیس سال سے لکھ رہا ہوں ..١٢ کتابیں بھی چھپوا چکا ہوں ..میڈیا مہربان نہیں ہے اس لئے میں ہیرو نہیں زیرو ہوں ...نہ میں اینکر بن سکا نہ کروڑ پتی ...کیونکہ ٤٥ سالوں سے صرف مزدوری کر رہا ہوں .......اگر ملالا کے نام سے کتاب نہ لکھی جاتی تو بہتر تھا ...نہ ملالا کے چہرے سے نقاب ہٹتا اور نہ  ملالا کا اصل چہرہ میرے سامنے آتا ...اور نہ میں پریشان  ہوتا .....یہاں میڈیا اور مافیا جس پر مہربان ووہی ہیرو .....مگر ملالا کے ڈیڈی نواز شریف کا کیا بنے گا جو  ڈاکٹر  عافیہ صدیقی  کا ڈیڈی تو نہ بن سکا .....ملالا کی کتاب سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ سلمان رشدی بن جاؤ ....پیسہ کماؤ ..نمبر بناؤ ....مشہور ہو جاؤ ...دنیا کا ہر میڈل اپنے سینے پر سجاتے جاؤ .....طالبان نے  جو  ظلم کیا سو کیا ..مگر ملالا کا باپ جو عالمی گوماشتوں کے ہاتھوں کھیل کر اپنی پھول جیسی بچی کے ساتھ ظلم کر چکا ہے اور مزید کرے گا .....وہ آہستہ آہستہ تم بھی دیکھو میں بھی دیکھوں  گا .....اگر میڈیا کو کتاب پر تبصرے سے روک دیا گیا تو اور بات ہے ..ورنہ یہ کتاب مسلمانوں اور خاص کر پاکستانیوں کے لئے ایک متنازعہ کتاب ثابت ہو گی ....کیونکہ لکھنے اور  لکھانے والا باپ اور نام بیچاری ملالا کا .......میں اوریہ مقبول جان اور انصار عباسی سے بھی متفق ہوں ..مگر دوسرے غیر ذمےدار تبصرہ نگاروں سے متفق نہیں ہوں جو دوغلی .منافقانہ پالیسی اختیار کرتے ہوۓ یہ کہتے ہیں کہ کتاب میں ایسی کوئی بات نہیں ہے مگر اس کتاب کو پاکستان نہیں آنا چاہئے ..اس منطق کو میں نہیں سمجھ سکا اگر آپ سمجھ گہے ہیں تو قوم کو اگاہ کر دیں .....میں تو بار بار ایک ہی عرض کر رہا ہوں ..کہ ہماری تمام برائیوں کی جڑھ اسلام سے دوری کا نتیجہ ہے ....نا اہل .کرپٹ ..بد دیانت حکمران ..غلط فرسودہ . دقیانوسی نظام کی وجہ سے ہم پوری دنیا میں تماشہ بن چکے ہیں ...ہم زوال کی طرف گامزن ہیں ہمارہ معاشرہ تباہ ہو چکا ہے .....یہاں صفائی کی ضرورت ہے نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ..یہ کام اب صرف انقلاب سے ممکن ہے جمہوریت سے نہیں ہو گا ...کیونکہ جمہوریت کے ان ٹھیکیداروں کی وجہ سے ہی ہم برباد ہوۓ ہیں ......جتنا خون ہم ہر روز بھا رہے ہیں ..اگر میرا حکمران نظم تبدیل کر دیتا تو ملک میں کب کا سبز انقلاب آ چکا ہوتا .............اسی لئے اپنی کتاب میں حکمران سے کہا .....
..........لانا ہے انقلاب تو پھر خون بہانا کوئی ضروری ہے
.........بدلنا ہے  نظام  تو پھر بہانے  بنانا کوئی ضروری ہے
..........جب یقین ہے  کہ  موت  نے  اک  دن   آنا   ہے
.........تو  پھر زندگی  کا  جشن  منانا  کوئی  ضروری  ہے
....................جاوید اقبال چیمہ .....میلان ..اطالیہ

Friday, October 25, 2013

..................نواز شریف کا ناکام ترین دورہ ........................
........نہ تو میں قصیدہ لکھ سکتا ہوں ...نہ جھوٹ بول سکتا ہوں ...نہ میرا ضمیر اجازت دیتا ہے کہ کالے کوے کو سفید لکھ سکوں ...نہ  مجھے نواز شریف سے دشمنی ہے ....نواز شریف کا کچھ نہں بگڑا .....اگر نقصان ہوا ہے تو قوم کا ....اگر بےعزتی کی گئی ہے تو پاکستانی قوم کی ...اگر مذاق کیا گیا ہے تو پاکستانی قوم کے ساتھ کیا گیا ہے ....اگر اس دورے کی ناکامی کی وجوہات پر غور کیا جاۓ ..تو یا تو بیوروکریسی شامل ہے یا وہ لوگ جنہوں نے یہ دورہ آرگنائیز کیا تھا ...انہوں نے ملکر نواز شریف اور پاکستان کی مٹی پلید کی ہے ....اگر کامیابی ہوئی ہے تو صرف اتنی کہ جی حضوری اور چاپلوسی اگر اسی طرح جاری رہی تو نواز شریف کی نوکری پکی اور عوام کے لئے چکی ......امریکا کامیاب ہو گیا تھا  جب میرے حکمران کے منہ سے یہ الفاظ پردیس میں نکلے ..کہ ہم کو اپنا گھر ٹھیک کرنا ہو گا اور اگر مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے تو کاروائی کرنا ہو گی ...یہی تو امریکا چاہتا ہے کہ ہم وزیرستان میں کاروائی کریں اور دنیا مزید ہماری بربادی کا تماشا دیکھے ..اور ہو سکتا ہے کہ ١٩٧١ والے حالات پیدا کر دئے جایں ...کیونکہ کشمیر ..عافیہ صدیقی اور ڈرون کے معاملہ  پر امریکا نے ہمارے منہ پر پھر انڈیا کی طرح تماچہ رسید کر دیا ہے ...اور ہم صرف ہاتھ سینے پر رکھ کر باادب ہونے کا مظاھرہ کر کے واپس آ گہے ....نواز شریف کی توہین کی مرتکب بیوروکریسی نے اس طرح کی ہے ..جیسے کوئی پرانا بدلہ لیا گیا ہے ....یا میں نواز شریف کی ناہلی کہوں ..کہ اس کو جلدی میں امریکا کا دورہ نہیں کرنا چاہئے تھا ..ہوم ورک مکمل کرنے کے بعد یہ دورہ کرتے تو اچھا ہوتا ..اور کچھ نہ کرتے مگر یہ ڈکٹیشن نہ لیتے کہ مذاکرات کامیاب نہ ہووے تو ہم چڑھائی کر دیں گے ..کیونکہ یہی تو ہمارا دشمن چاہتا ہے ... دورے سے پہلے عافیہ صدیقی کا معاملہ طے کر لیا جاتا ..تو اچھا ہوتا ..کم از کم عزت تو رہ جاتی .......اب نہ صنم نہ وصال صنم والی بات نہ ہوتی ............کیا کہوں کشکول والے حکمرانوں اور نا اہل بزدل حکمرانوں کے ساتھ ہمیشہ یہی ہوتا ہے اور یہی ہونا بھی چاہئے .......کاش قصیدہ لکھنے والوں کے پاس ضمیر نام کی کوئی چیز ہوتی ....اور وہ ضمیر کی آواز سے حکمران کو بتا سکتے کہ  اپنے قبلے اور مقصد اور نیت کو ٹھیک کرو اور اپنی ترجیحات کو قوم کے  سامنے رکھو ...اور قوم کے ساتھ ظالمانہ سلوک مت کرو ...کشکول کو توڑ دو ..نظام کو بدل دو ..تاکہ مشورے دینے والے خود بخود بدل جایں ....تاکہ گھر کی بات گھر میں کہ  دو ..یہ بات امریکا میں کہنے والی نہ تھی ...ڈکٹیشن کے بعد .......باقی آخر میں ایک عرض اگر جان  کی آمان  پاؤں ......تو یہ ہے کہ گھر خود بخود ٹھیک  ہو جاۓ گا اگر میرا حکمران ٹھیک ہو جاۓ تو .............کاش ...کاش ....کاش  کہ تیرے دل میں اتر جاۓ میری یہ بات ..............تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تیرا نہ من ............
.............جاوید اقبال چیمہ ...میلان ..اطالیہ .........

Wednesday, October 23, 2013

..............نواز شریف کا  دورہ امریکا ........ .............................................نواز شریف کے دورہ امریکا کے  بارے میں بھوت  کچھ لکھا جاۓ گا ....مگر میں صرف ایک خبر کا اضافہ کر رہا ہوں ...جو کہ میری چڑیا نے  نہیں ..بلکہ میرے کبوتر نے مجھے فون پر بتائی ہے .....میرا کبوتر کہتا ہے کہ میں جب ڈرون کی طرح  قلابازیاں کرتا ہوا .اوباما اور نواز شریف کے پاس سے گزرا تو کیا سنتا ہے ..کہ نواز شریف پوچھ رہے تھے کہ عزت مآب اوباما صاحب آپ نے وعدہ کیا تھا کہ نۓ  آرمی چیف کا نام  دیں گے ..تو براۓ مہربانی مجھے نام بتا دیں ....میں واپس پاکستان جا کر اعلان کر دوں گا ...تاکہ میری پانچ سال کی نوکری بھی پکی ہو جاۓ ..اور آپ کو کوئی نیا مشرف بھی ڈھونڈھنا نہیں پڑے گا ...اس طرح میری پھچلی غلطیوں کا بھی ازالہ ہو جاۓ گا ...اور عوام کو مزید قربانی کا بکرہ بنانے میں آسانی رہے گی ..اور آپ کے اور میرے محسن اسحاق ڈار کو بھی عالمی بینک کی اور آپ کی شرایط پوری کرنے میں آسانی ہو گی ....اور اس طرح ہر انقلاب کا راستہ ہمیشہ کے لئے روک دیا جاۓ گا ...کیونکہ عوام کو ہم نے اس قابل چھوڑا ہی نہیں ہے ..کہ وہ غربت اور پیٹ کے جنجال سے باہر  نکل سکیں ...ویسے بھی چند سال بعد پانی کی وجہ سے ہم پاکستان کو صومالیہ اور اتھوپیا بنانے جا رہے ہیں ...اس لئے یہی چند سال عوام سے خطرہ ہے ...وہ ہم بجلی پتڑول اور گیس کے ریٹ اتنے بڑھا دیں گے ..کہ ہم کو کرپشن کرنے میں آسانی ہو جاۓ گی ..آخری سال لوڈ شیڈنگ ختم کر دیں گے ...اور عمران خان کے تبدیلی نظام والے خواب کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیں  گے ...ویسے بھی ہم نے عمران خان کے انقلاب کو ایک صوبے میں حکومت دے کر دفن کر دیا ہے ...دوسرا ہم نے انقلاب کو روکنے کے لئے ایسے آدمی عمران خان کی ٹیم میں شامل کر دئے  ہیں .....کہ اب انقلاب تو دور کی بات ..وہ تو اپوزیشن کرنے کے بھی قابل نہیں رہے گا ..  ویسے بھی چند سال بعد حکمران ایک پانی کی بوتل کی قیمت پر ووٹ خریدا کرے گا ...اس لئے حکمران کے لئے میدان صاف ہو چکا ہے ..اور جو میری طرح انقلاب کے لئے بھونکتے ہیں ..یہ امریکا اور میرے حکمران کی ضرورت ہیں ..اس سے سب کی دکانیں چلنے میں دشواری نہیں ہوتی ..اور اپنا اپنا حصہ سب وصول کرتے رہتے ہیں .....اس خبر کو میرے تک پنچانے سے پہلے میرے کبوتر نے چڑیا سے رابطہ کیا ...کہ یہ بری  خبر میں عوام کو نہیں سنا سکتا ....مگر چڑیا نے بھی یہ خبر پھیلانے سے معذرت کر لی .......کہ چڑیا اب اپنا اقتدار تک پنچنے کا مقصد حاصل کر چکی ہے ..اسے اب ان فضول خبروں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ....بعد میں میرے کبوتر نے اپنے آنسو خشک کر کے میرے تک پنچا تو دی ہے ..مگر وہ بھوت اداس ہے پریشان ہے ...کہ آزاد پاکستان کے فیصلے دوبئی ..لندن .امریکا اور جدہ میں ہوتے ہیں ...حکمران اپنی دولت باہر کے ملکوں میں انویسٹ کرتا ہے ....اور عوام کے لئے مگر مچھ کے آنسو پاکستان میں بھاتا ہے ....واہ میرے کرپٹ  حکمران ..واہ میرے خوبصورت وردی والے جرنیل ..واہ میری مکار بیوروکریسی ...واہ میری شعور والی مجبور لاغر عوام ....واہ میرے انقلاب اور نظام ...تجھے مبارک ہو ..جنگل کا شیر اپنے شکار کے لئے پاگل ہو چکا ہے ...اور ہم جیسے گیدڑ اپنی اپنی غاروں سے باہر کی طرف جھانک رہے ہیں ..کہ شاید کوئی ہاتھی یا چیتا ہم کو پکارے کہ باہر نکلو ..مل کر مقابلہ کریں ...مگر ہر آس امید انقلاب والی نظام کی تبدیلی والی آہستہ آہستہ دم توڑتی جا رہی ہے ....کب کوئی خالد بن ولید آے گا اور ہم سپہ سلار پر فخر کر سکیں گے ..........شاید ....
........................جاوید اقبال چیمہ ..میلان ..اطالیہ ...............
.............٠٠٣٩..٣٢٠....٣٣٧..٣٣٣٩ ................................

Sunday, October 20, 2013

..................قادری صاحب کی شان میں گستاخی ................
.........جب قادری صاحب نے پہلی دفعہ انقلاب لانے کے لئے اور نظام بدلنے کے لئے عوام کو آگاہ کیا ..تو میں نے ان کی پزیرائی کی اور ہر روز ان کے حق میں کالم لکھنے شروع کر دئے ..اور میں نے فورن ٹکٹ لے کر کفن باندھ کر اٹلی سے نکلنے کا اعلان کر دیا ..مگر جونہی قادری صاحب نے گجرات والوں کو اور کراچی والوں کو گلے لگایا ...تو میں نے اپنا پروگرام ختم کر دیا اور صاف صاف قادری صاحب کی ناکامی کا اعلان کر دیا ..تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ کہاں کہاں قادری صاحب نے غلطی کی اور کیوں کی ...سب کچھ لکھ چکا ہوں ...قادری صاحب بھی میرے بارے میں سوچتے ہوں گے کہ کیسا انسان ہے ....یہ سہی ہے کہ میں آنکھیں بند کر کے نہ تنقید کر سکتا ہوں اور نہ قصیدہ لکھ سکتا ہوں ...اس لئے قادری صاحب کوئی گستاخی سمجھتے ہیں تو معافی کا طلبگار ہوں ...کیونکہ میں ایک بار پھر یہ شور سن رہا ہوں کہ کفن باندھ کر نکلنے کی تیاری کی جا رہی ہے ....میں یہ بھی گستاخی نہیں کر سکتا کہ قادری صاحب سے یہ عرض کروں کہ مشورے کے لئے مجھے اپنے پاس بلا لیں ..کیونکہ مشورے دینے والوں کی قادری صاحب کے پاس کوئی کمی نہیں ہے ...میں تو صرف اتنی گستاخی کرنا مناسب سمجھوں گا ...کہ قادری صاحب اگر آپ نمود و نمائش یا دولت یا بڑا نام یا کوئی عالمی نوبل انعام چاہتے ہیں ..تو پھر آپ جس ڈگر پر چل رہے ہیں ..چلتے رہیں ....پھر ہم جیسے گنیگاروں کے جذبات سے مت کھیلیں ..اور اگر واقعی اس پاکستانی قوم پر کوئی خدا اور نبی کی خاطر احسان کرنا ہی ہے ...اور ہم کو واقعی ان چوروں ..لٹیروں ..بغیرتوں .غداروں ..اور کرپٹ کتے حکمرانوں سے نجات دلوانا چاہتے ہیں تو براۓ مہربانی اپنا بوریا بستر باہر کے ملکوں سے گول کریں ..تمام مشن کا خاتمہ کریں ..اور اس فرسودہ نظام کی تبدیلی کا ایک ہی مشن رکھیں اور کفن باندھ کر آ جایں ...صرف پاکستانی نیشنل بن کر قوم کو دکھا دو اور بھونکنے والوں کے منہ بند کر دو ...اور آپ  کو میری بکواس پر یقین نہ ہو تو اپنے دو خاص آدمی میرے پاس اٹلی بھیج دو ..میں ان کے ساتھ کفن باندھ کر اسلامآباد جانے کے لئے تیار ہوں ..اور پہلی موت میری ہو گی نظام کی تبدیلی میں ....آزمایش شرط ہے ....کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان  کی بے غیرت  منافقت والی جمہوریت نظام نہیں بدل سکتی ..یہ بات عمران خان ..جماعت اسلامی ..حافظ سعید ..حمید گل ..زاہد حامد .اوریہ مقبول جان ..سلیم بخاری اور کروڑوں جانتے ہیں مگر بات صرف شیخ رشید اور آپ کر رہے ہیں ..دوسروں کی کیا مجبوریاں ہیں ..یا سب شاید آپ جیسے پاور والے لیڈر کی تلاش میں ہیں ......نظام بھی سب کے پاس ہے اور آپ کے پاس بھی اللہ کے فضل سے ہے ...اس لئے نیا نظام دینے میں بھی کوئی مشکل نہیں ہے ..ویسے بھی ہمارے پیارے نبی کے نظام سے بڑا دنیا میں کوئی نظام ہو ہی نہیں سکتا ..جو سارے فیصلے مسجد میں بیٹھ کر کرتے تھے ...ہر محلے کی مسجد سے نکلنے والے نظام کی تھوڑی سی ابتدا پر بھی کسی پاکستانی کو بھی اعتراض نہیں ہو سکتا ..شرط  یہ ہے کہ محلے کی سطح سے ابتدا تو ہو ...پآور اور فنڈ تو ہو ..ٹیلینٹ بھوت ہے ...اس وقت تمام ٹیلینٹ پر بیوروکریسی کا قبضہ ہے ..یہ مافیہ چوروں ڈاکوؤں کا قبضہ ہی تو ختم کرنا ہے ...تو پھر قادری صاحب کیا فیصلہ کرنا ہے ..انقلاب سے نظام بدلنے کا ارادہ ہے یا پھر عوام کو بے غیرت سیاستدانوں کی طرح بیوقوف بنا کر اپنی اور اینکروں کی دوکان ہی چلانے کا ارادہ ہے ...میں آپ کو موت زندگی . جنت دوزخ کا سبق یاد کروانا نہیں چاہتا ..کیونکہ آپ مجھ سے ہر بات اچھی طرح جانتے ہیں ...اس وقت جو نظام ہے وہ ہے پلاٹ .بنگلے .مال بنانے والا ..مذمت کرنے والا ..ہر بات پر کمیٹیاں بٹھانے والا ..اور اگر آپ نے ٤٥ کروڑ بچانا ہے تو دو کروڑ جج کو دے دو ..اگر وہ نہیں لیتا تو اسے گھر بھیج دو ...شیخ رشید صاحب  تیار ہیں اور کروڑوں تیار ہیں ..مگر نکلنا کفن باندھ کر پڑے گا ..اگر حوصلہ اور جرات ہے تو....تو عوام کو شیڈول دے دو ....ورنہ اس قوم  کو مزید برباد ہونے کے لئے تنہا چھوڑ دو ...اور تم کینیڈا میں بیٹھ کر اور میں اٹلی میں بیٹھ کر تماشہ دیکھتا ہوں ....اور ہم اپنے بیچاروں کی فون کال سن سن کر روتے رہیں گے ...کہ وہ بیروزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں خود کشی کرنے پی مجبور ہیں ...اور ہم حکمرانوں کو گالیاں دیتے رہیں گے جن کو کوئی فرق نہیں پڑتا ....قادری صاحب آپ کو خدا اور رسول کا ایک دفعہ پھر واسطہ ...اس قوم کے لئے قربانی دے دو ..اس وقت قوم کو کسی کربلا کا انتظار ہے ........پلیز ..پلیز   ..........
...........اک سجدہ ہے  جو  تیرے  اعتبار  تک  پنچے
.........اک آواز ہے جو  تیرے  درو  دیوار  تک  پنچے
.........خدا حافظ .....جاوید اقبال چیمہ ..میلان ..اٹلی ....
.....٠٠٣٩...٣٢٠....٣٣٧...٣٣٣٩.....
...................................کاش ..............................
................ حکمرانی کے لئے ایک آزمایش رکھ دیتا وہ
..............اور عبادت میں کاش ہر آشایش رکھ دیتا  وہ
..........................عاجزی . انکساری سے کام نہیں چلتا میرا
........................کاش .آخرت   کا نام نمود و نمائش رکھ دیتا  وہ
...............دنیا بنا  دی  ہے  دوزخ  میرے لئے  اس نے
.............کیا  جاتا  اگر جنت  کی  نمائش  رکھ  دیتا  وہ
.......................بدل  جاتی  میری  بھی  زندگی  کاش
.....................گر حصول جنت میں اک فرمائش رکھ دیتا وہ
...........میرے  سینے  میں   دل  نہ  رکھتا
........اک  پتھر  ہی  کاش  رکھ  دیتا  وہ
.....................کر  لیتا  دو  چار  سجدے  میں  بھی
...................گر عبادت  میں  فکر ے معاش رکھ دیتا وہ
........بدل  جاتی  انداز حکمرانی  جاوید
.......گر حکمرانی حق قلاش رکھ دیتا وہ
..........................جاوید اقبال چیمہ ...میلان ..اطالیہ ......
................اینکر براۓ فروخت ................
........کافی دنوں سے ایک خبر اخبار کے تراشے کے ساتھ ایک مہربان نے فیس بک پر لگائی تھی ...میں دیکھتا رہا اور انتظار کرتا رہا ...کہ کب کوئی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے ..اور کب ہتک عزت کا مقدمہ داخل ہوتا ہے ...مگر کافی انتظار کے بعد بھی کوئی ہل چل نہیں ہوئی ...بلکہ آہستہ آہستہ دوسری خبروں کی طرح یہ خبر بھی ماضی کا حصہ بن چکی ہے ...کیونکہ بڑے لوگوں کی خبر ایک ہی بار اخبار کی زینت بنتی ہے ...اور جب خود ہی وکیل ..خود ہی منصف ..خود ہی عدالت والا معاملہ ہو تو بات اور بھی آسان ہو جاتی ہے ....خبر یہ تھی کہ ناین الیون کے واقعہ کے بعد پاکستان کے چند صحافی ..کالم نگار اور اینکر حضرات کروڑوں اور اربوں کے اثاثے کی ملکیت بن چکے ہیں ...چنیل اور اخبار کے مالکان کے علاوہ جو نام لکھے  ہیں ..ان  ناموں میں سے چند نام یہ بھی ہیں ...جو ہمارے بھروسے والے ...جن کی ہم بڑی عزت کرتے ہیں اور جن کا بڑا نام ہے ...اور جو سیاستدانوں کے ساتھ ملکر ہمارے جذبات سے بھی  ..عزت.غیرت .وطن کی دی ہوئی آزادی  کے ساتھ بھی بڑی مہارت کے ساتھ کھیلتے  ہیں اور کھیل رہے ہیں ......ان میں جاوید چودھری .. مبشر لقمان ..حسن نثار ..نزیر ناجی ..مجیب شامی ..مہر بخاری .عاصمہ جہانگیر ..سلیم سافی ..انصار عباسی ..حامد میر ..اور تنظیم کے صدر شوکت صاحب کے علاوہ مافیا کے سرکردہ ملک ریاض کا  کردار بھی شامل ہے ....اگر یہ بات سچ ہے ..تو میں تو اس ملک کی بدقسمتی  ہی  کہ سکتا ہوں ....ویسے تو ہر زی شعور یہ بات جانتا ہے.اور بڑے بڑے نام ہیں ...مگر کیا بنے گا ..کچھ بھی نہیں ..اس ملک میں ہم پاکستان کے خلاف بولنے والوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکے ...بکنے والوں کا کیا  بگاڑ لیں گے ..ہم غداروں کو میڈل  اور تمغے دینے والی قوم ہیں.غداروں کے لئے ہماری زمیں بڑی زرخیز ہے ..امتیاز عالم اور حسین حقانی کا کیا  بگاڑ لیا ہم نے.امریکہ کی ایمبیسی میں جب صحافی جام پی جام کے کش لگایں گے تو کچھ تو صلہ ملے گا قوم کو  ..صحافیوں کا کیس تو عدالت میں بھی ہے . مگر کیا بنے گا ..ہزاروں کیس تو سیاستدانوں کے نیپ میں پڑے سڑ گل رہے ہیں ..میری کون سنے گا ..یہاں تو قادری صاحب اور شیخ رشید جیسے لوگوں کی کوئی نہیں سکتا ...میرے جیسے لوگوں کے خلاف ایکشن ایک منٹ میں ہو جاتا ہے ..اس ملک نے آخر کار مزید برباد ہونا ہے ..جہاں جنگل کا قانون ہے .. پاکستان میں بھوت ساری ایجینسیاں اپنا اپنا کام کر رہی ہیں ..اور وہ کامیاب بھی ہو چکی ہیں ...جنگ بھی جیت چکی ہیں ....سب سے بڑا کام انہوں نے پاکستانیوں سے لیا کہ یہ جنگ جو ہماری نہیں تھی اس کو ہماری جنگ بنایا ....ہمارے   اندر ڈالر ڈال کر ہماری زبان اور قلم کو قابو کیا .فرسٹریشن ..ٹارگٹ کلنگ ..پیدا کی ..بے حیائی .اور دوسری ہر برائی کو بڑی مہارت سے ہمارے معاشرے کو برباد کر دیا گیا ہے ...اب ہم زوال کی طرف تیزی سے گامزن ہیں ...کوئی بھوت بڑا انقلاب ہی ہم کو بچا سکتا ہے ..انقلاب بھی اگر کسی دیانت دار لیڈر کی رہنمائی میں آے تو ....ورنہ خانہ جنگی تو ہو گی ...کون بچاتا ہے اس ملک کو ..کون اس بحران سے ںکالتا ہے ..تم بھی دیکھو میں بھی دیکھوں گا ........اپنی آخری کتاب کئ  آخری غزل ...سوچتا ہوں کیا لکھوں ..کا آخری شعر ...........
..... پھر  بھی.خدا  اور نبی سے نا امید نہیں جاوید
.....حکمران سے نا امید لکھوں یا بد گماں لکھوں
..................جاوید اقبال چیمہ ....میلان ..اطالیہ .......

Wednesday, October 16, 2013

...........................آپ  کے سوالوں کے جوابات .....................................
.................آپ لوگوں کے جزبات کی قدر کرتا ہوں ..آپ تلخ سوالات کرتے ہیں ...مگر سوالوں میں خود ہی پھنس جاتے ہیں ..اور آپ خود ہی جواب دے جاتے ہیں ...مگر اپنی بات پر اڑ بھی جاتے ہیں صرف ذاتی وابستگی کی وجہ سے آپ کا ضمیر بھی آپ کو جب ملامت کرتا ہے تو بات کو ادھر ادھر گمانے کی کوشش کرتے ہیں ...حقیقت سے نظریں چرانا نہ میرا شیوہ ہونا چاہئے نہ آپ کا ...کیونکہ یہ منافقت کے زمرے میں آتا ہے ...میں کسی لیڈر یا سیاستدان کو ڈیفنڈ نہیں کروں گا ....آپ سوال کرتے ہیں کہ کہاں گیا تمہارا لیڈر عمران خان جو ملک میں انقلاب ..سوامی ..لانے کی نظام تبدیل کرنے کی باتیں کرتا تھا ...پوچھو شیخ رشید سے جب وہ مشرف بےغیرت . غدار کے ساتھ تھا تو کیوں نظام نہیں بدلہ ...پھر آپ کہتے ہیں کہ جنرل حمید گل اور حافظ سعید  سے پوچھو کہ دفاع پاکستان تحریک کہاں چلی گئی ....پھر آپ کہتے ہیں کہ پوچھو اپنے زاہد حامد سے کہ کب تک صرف تقریریں ہی کرتا رہے گا ..عملی اقدام کب اٹھاۓ گا ...یا یونہی عوام کو بیوقوف بنا کر کہانیاں سناتا رہے گا ...پھر آپ کہتے ہیں کہ پوچھو اپنے انقلابی عالم فاضل جناب قادری صاحب سے کہ کب تک وہ اپنا انقلاب کا ڈرامہ سٹیج سجانا چاہتے ہیں یا پھر اپنے گولڈ میڈل کی تلاش میں انقلاب پر صرف تقریریں ہی کرتے رہیں گے ....آپ کے سوالات سے لگتا ہے کہ آپ ہر انقلاب لانے والے سے نظام کی تبدیلی والے سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور آپ کے سوالوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ انقلاب لانے والوں سے ناامید ہو چکے ہیں ...اس لئے ہاتھ نہ پنچے تو تھو کوڑی ......والا معاملہ ہو چکا ہے تب آپ اس گلے سڑے فرسودہ نظام سے ہی سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہیں ....یہی آپ کے سوالوں کا جواب ہے ..کہ ملک میں انقلاب تو چاہتے ہیں.. نظام  کی تبدیلی تو چاہتے ہیں مگر تم کو بھی میری طرح اپنے لیڈ کرنے والے پر اعتبار نہیں ہے ..کیونکہ حکمرانوں نے اس ملک کی تقدیر اور عوام کے ساتھ کچھ کھیلا  ہی اس طرح ہے ..کہ اعتبار کھو چکے ہیں ...مگر اس کھیل میں صرف شیخ رشید یا قادری صاحب  جیسے لوگ نہیں ہیں ..بلکہ زرداری صاحب اور میاں نواز شریف ..شہباز شریف صاحب کی بھی پھچلی تقریریں اٹھا کر موازنہ کر لیں ..وہ بھی انقلاب کو نظام کی تبدیلی کو دھوکہ دے چکے ہیں اور عوام کے ساتھ فراڈ کر چکے ہیں اور اپنے کئے ہوۓ  وعدوں سے منحرف ہو چکے ہیں ....کیونکہ طاقتور طبقہ نہیں چاہتا کہ نظام تبدیل ہو ..کیونکہ جاگیردار ..وڈیرہ ..مافیا کے سردار اور بیوروکریسی نہیں چاہتی ..اور یہ سب لوگ زرداری اور شریف برادران کو کندہ دیتے ہیں ....اور جب کہ آپ اور میں صرف کٹھ پتلی ہیں اور انقلاب چاہتے ہیں اور آنے والی نسلوں کو بربادی سے بچانا چاہتے اور ان چوروں ..لٹیروں کے چنگل سے آزاد کروانا چاہتے ہیں ...اس لئے ہم ہر اس آدمی کو اپنا نجات دھندہ سمجھتے ہیں ...جو ہم کو اچھے کاز کے لئے کال دیتا ہے .....کیونکہ آپ اور میں صرف ایک بات پر متفق ہیں کہ نظام کی تبدیلی کے بغیر ہمارا مستقبل تاریک ہے ...ڈیلی ویجز کی بنیاد پر کب تک چلیں گے ...یورپ نے صرف لئے ترقی کی کہ یہاں ایک نظام ہے ...وزیروں کے آنے یا جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ..اور نہ کوئی یہاں ڈگری ہاتھ میں لے کر وزیر کی گاڑی کے پیچھے بھاگتا ہے ..اور نہ بنگلوں میں حاضری دیتا ہے ..اور نہ پرچہ کٹوانے کے لئے تھانیدار کو رشوت دینی پڑتی ہے اور نہ سفارش ...اور نہ انصاف حاصل کرنے کے لئے اور نہ انصاف خریدنے کے لئے جج کو رشوت دینی پڑتی ہے .....اس لئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ انقلاب ہی واحد حل ہے جس سے نظام بدلہ جا سکتا ہے ..اس لئے انقلاب کو کوئی بھی لیڈ کرے گا ..میرے جیسے لوگ اس کا ساتھ دیں گے ....چاہے وہ لیڈ کرنے والے کا ماضی کتنا ہی داغدار کیوں نہ ہو ..کیونکہ یہاں کوئی بھی پاک صاف نہیں ہے ....ہم سب گنہگار ہیں ....اس لئے جو بھی مخلص ہو کر اس قوم کے بارے میں سوچے گا ہم اس کا ساتھ دیں گے ..وہ چاہے شیخ رشید ..عمران خان ..طاہر  قادری صاحب ..یا نواز شریف ہی کیوں نہ ہو ..اس لئے ہم پر کیچڑ اچھالنے سے پہلے اپنے ضمیر سے ضرور سوال کر لیں سب کے سب جوابات موصول ہو جایں گے ..........انسالله ...............
....................جاوید اقبال چیمہ ..میلان ..اطالیہ ....٠٠٣٩..٣٢٠...٣٣٧...٣٣٣٩.....

Monday, October 14, 2013

.....................شیخ رشید صاحب کے نام ......................
...........میں شیخ رشید صاحب کی ذات ..ان کی دلیری ..ان کی جرآت ..ان کی بیباکی ..ان کی باتوں کی سچائی  پر ان کو سلام پیش کرتا ہوں ....یہ ایک بہادر اور سچہ .اور نڈر انسان اور مسلمان کی سوچ ہے ....میں اپنے ہر کالم ہر کتاب میں لکھ چکا ہوں ..کہ انقلاب ہی اس ملک کا واحد حل ہے ...کوئی اور طریقہ جمہوریت اس بےغیرت ..فرسودہ ..گلے سڑے نظام کو نہیں بدل سکتا .....اگر نظام بدلنا ہے ..تو سر پر کفن باندھنا پڑے گا ..کسی کو قربانی دینا ہو گی ..اس لئے میں اپنے آپ کو کفن باندھ کر نکلنے والوں میں شامل کرتا ہوں ...میں کفن باندھ کر شیخ رشید کے ساتھ نکلوں گا اور نظام کی تبدیلی کی خاطر پارلیمنٹ کے سامنے مرنے کو ترجیح دوں گا ....مجھے صرف اتنی گارنٹی چاہئے کے حکومت کا کوئی کارندہ مجھے زندہ نہ اٹھاۓ ....موت کے بعد جہاں مرضی پھینک دیا جاۓ ..مگر مرنے سے پہلے ہاتھ نہ لگایا جاۓ ....بھر حال جو بھی ہو ..میں شیخ رشید کی کال کا انتظار کروں گا ..اسی وقت اٹلی سے ہی کفن باندھ کر اسلامآباد ائیرپورٹ پر پنچ جاؤں گا ......اسی لئے ہر کتاب میں لکھ چکا ہوں ...............................................
.................نہ بدلے جس سے نظام وہ انقلاب افکار نہیں ہوتا
................بہہ  جاۓ  جو قوم کی خاطر وہ لہو بیکار نہیں ہوتا .......
...........................................پھر کہتا ہوں ................................
.............ایک سجدہ ہے جو تیرے اعتبار تک پنچے
...........ایک آواز ہے جو تیرے درو دیوار تک پنچے
............................حکمران کو کئی بار عرض کیا ..................
..........انقلاب کے لئے خون بہانا کوئی ضروری ہے
........بدلنا ہے نظام تو پھر بہانے بنانا کوئی ضروری ہے
..........جب      یقین    ہے    کہ موت نے اک دن آنا ہے  
........تو پھر زندگی کا جشن منانا کوئی ضروری ہے
......................پھر اپنی جدو جہد کو یوں بیان کرتا ہوں ............
...................سنا ہے نام چلو انقلاب کا دیا جلا کے دیکھتے ہیں
..................چلو اس منچلے  ہجوم کو بھی قوم بنا دیکھتے ہیں ........پھر لکھا ......
...........کہ ہم سب کو مصلحت پسندی کے خول سے باہر نکلنا ہو گا ..منافقت اور کرپشن اور اقرباپروری کی سیاست اور جمہوریت کے فیشن کو بدلنا ہو گا ..اگر ملک کو بچانا ہے تو...مگر نظام بدلنے والے میرے سب مہربان سو چکے ہیں ...یہ صرف شیخ رشید کی ذمہ داری نہیں ہے ....کہاں  ہیں ..عمران خان صاحب...جنرل حمید گل ..زاہد حامد ..اوریہ مقبول جان ...سلیم بخاری ...نظامی صاحب ...حافظ سعید صاحب ...جماعت اسلامی اور طاہر قادری صاحب ..وغیرہ وغیرہ .....سب سے اپپل اور ہاتھ باندھ کر درخوست کرتا ہوں کہ ملک کو چوروں ..لٹیروں سے بچانے کے لئے متحد ہو جاؤ ..اگر شیخ رشید کی کال پر نہیں نکل سکتے ..تو متحد ہو کر نظام کی تبدیلی کے لئے کوئی عملی اقدام اٹھانا ہو گا .. خدا اور نبی کا واسطہ دیتا ہوں ....متحد ہو جاؤ ....ڈاکٹر دانش اور اقرار حسن صاحب جیسے لوگوں کو بھی سوچنا ہو گا ..کہ وہ اینکر بعد میں پہلے مسلمان اور پاکستانی ہونے کا بھی فرض ادا کریں ........آخر میں پھر شیخ رشید کی کال پر لبیک کہتا ہوں اور سلیوٹ کرتا ہوں .............ایک کتاب پر میں نے انقلاب کے بارے میں یہ لکھا تھا ........
..میری  زندگی یا موت قوم اور دین سے زیادہ اہم نہیں ہے .........
..........................انقلاب تو آے گا آتش نمرود کو بجھا کے آے  گا
.........................آنے سے پہلے تیرے اندر ہلچل مچا کے آے  گا
............................اب   تاج  اچھالے  نہیں  جایں    گے
.........................اب  کی  بار  تاج و تخت  جلا کے آے گا
..................................انشااللہ .....جاوید اقبال چیمہ ..میلان ..اطالیہ ..
...وائس پریذیڈنٹ آل اطالیہ پریس کلب اطالیہ ....
.........٠٠٣٩...٣٢٠...٣٣٧...٣٣٣٩.............

Sunday, October 13, 2013

....................................
اگر ...........................

...............

اگر قاعد کے ساتھی لیاقت علی کی شہادت کو منظر عام پر لایا جاتا ..چند کو کیفرے کردار تک پنچایا جاتا ..تو حالات مختلف ہوتے ..اگر بیوروکریسی کی ملی بھگت سے ایوب خان راتوں رات روٹ پرمٹ جیسی رشوت دے کر کھیل نہ کھیلتے ...اگر سیاستدان فاطمہ جناح کے ساتھ غداری نہ کرتے ..تو آج حالات مختلف ہوتے ..بھٹو بھوت بڑے لیڈر تھے ..اگر وہ سیاسی دوستوں کے ساتھ ظلم نہ کرتے ..جیل میں زیادتی نہ کرتے ..زیادہ جذباتی فیصلے نہ کرتے ..ادھر تم ادھر ہم جیسے نعروں کو روکتے ..مجیب کو اقتدار دے دیا جاتا ..اگر ضیاء کی چاپلوسی میں نہ آتے ...اگر بھٹو کو پھانسی نہ دی جاتی ..اگر گورنر کھر بھی اتنے ظلم نہ کرتا ...اگر گورنر کھر جیسے لوگوں کا بھی احتساب ہوتا ..اگر بھٹو احتساب کے عمل کو شفاف بنا دیتا ..اگر بیوروکریسی جنرل ییحیٰ کو پاکستانی جھنڈے میں عزاز کے ساتھ دفن نہ کرتی ...اگر میرا ہر حکمران کسی ایک غدار کو الٹا لٹکا دیتا ..سرے عام پھانسی دے دیتا ...اگر ہم انڈیا کے ساتھ دوستی کی پینگیں نہ اڑاتے ....اگر جنرل ضیاء افغانستان کی جنگ اور امریکہ کی جنگ نہ لڑتا ....اگر روس کو برباد کرنے سے پہلے پاکستان کے قرضے جرات سے معاف کروا لیتا ...اگر چڑیا ......باز کو مار گرانے سے پہلے اپنی قیمت وصول کر لیتی .....اگر ضیاء آیتیں پڑھ کر قوم سے چھوٹ نہ بولتا ..اگر ضیاء غیر جماعتی الیکشن نہ کرواتا ..اگر ضیاء بعد میں خرید و فروخت کر کے جونیجو کے لئے ووٹ نہ خریدتا ...پھر جونیجو کی حکومت کو غیر آینی طریقے سے ختم نہ کرتا ...اگر اس وقت تمام سیاستدان ضیاء کے خلاف ہو جاتے ..کابینہ سے علیحدہ ہو جاتے ...جونیجو کا ساتھ دیتے ..اپنے مفادات کو نہ دیکھتے تو آج حالات مختلف ہوتے ....اگر عدالتیں نظریہ ضرورت پر نہ چلتیں ...اگر عدالتیں بڑے لوگوں کے فیصلے وقت پر کرتیں ...زرداری جیسے لوگوں کے فیصلے بر وقت ہوتے ..یا موت ..یا سزا یا اندر یا باہر .....اگر بینظیر بھی فاروق لغاری کی بات مان لیتی یا سمجھ جاتی ....اگر اسحاق خان جیسے لوگ بھی قوم کے ساتھ بیدردی سے نہ کھیلتے ...اگر ہمارے سیاستدان مفاد پرست یا کرپٹ ..چور ..لٹیرے نہ ہوتے ...اگر نظام تبدیل کر دیا جاتا ..اگر بھٹو زمینوں کی تقسیم کرنے اور بیوروکریسی کو لگام ڈالنے میں کامیاب ہو جاتے ...اگر بینظیر اور نواز شریف عالمی گماشتوں کے ہاتھوں میں نہ کھیلتے ...اگر میرا حکمران چاپلوسی کو پسند نہ کرتا ...اور بیوروکریسی کے ہاتھوں میں نہ کھیلتا ....اگر نواز شریف کالا باغ ڈیم بر وقت بنا دیتا ..اگر نواز شریف خلافت کے لئے کسی ضیاء بٹ کی تلاش نہ کرتا ....اگر نواز شریف چھانگا مانگا کی سیاست نہ کرتے ..اگر نواز شریف گجرات والے چودھریوں کے ہاتھوں میں نہ کھیلتے ....اگر مشرف قوم کے ساتھ بغیرتی نہ کرتا ..نہ اس جنگ یعینی دہشت گردی والی آگ میں بزدلی سے چھلانگ لگاتا اور نہ چووروں ..لٹیروں .بےغیرت غدار . مفاد پرست ٹولے کو ساتھ ملا کر لمبھی حکومت کرنے کے خواب دیکھتا ..نہ ملک کا بیڑہ غرق ہوتا ...اگر مشرف چاہتا تو ایک رات میں نظام تبدیل ہو سکتا تھا ..مگر مشرف نے قوم کے ساتھ غداری کی .....اگر اس جنگ میں جانا ہی تھا تو ملک کے قرضے ہی معاف کروا لئے جاتے ....اگر ہم امریکہ کی جنگ میں نہ شامل ہوتے تو اتنا برباد نہ ہونا تھا ..جتنا اب تک ہو چکے ہیں ...نہ یار ہی ملا نہ وصال صنم ....امریکہ پھر بھی ہم سے خوش نہیں ہے ..البتہ وہ پاکستانی قوم کی رگ رگ سے واقف ہو چکا ہے ...اسی لئے تو اس کی اجنسیاں کھلے عام خرید و فروخت کر رہی ہیں ....

......

ایک سجدہ ہے جو تیرے اعتبار تک پنچے ...ایک آواز ہے جو تیرے درو دیوار تک پنچے ........................

.............................

جاری ہے ................................................

.....................

جاوید اقبال چیمہ ..میلان ..اطالیہ ....

..........................

٣٢٠..٣٣٧....٣٣٣٩......
....................................
اگر ...........................

...............

اگر قاعد کے ساتھی لیاقت علی کی شہادت کو منظر عام پر لایا جاتا ..چند کو کیفرے کردار تک پنچایا جاتا ..تو حالات مختلف ہوتے ..اگر بیوروکریسی کی ملی بھگت سے ایوب خان راتوں رات روٹ پرمٹ جیسی رشوت دے کر کھیل نہ کھیلتے ...اگر سیاستدان فاطمہ جناح کے ساتھ غداری نہ کرتے ..تو آج حالات مختلف ہوتے ..بھٹو بھوت بڑے لیڈر تھے ..اگر وہ سیاسی دوستوں کے ساتھ ظلم نہ کرتے ..جیل میں زیادتی نہ کرتے ..زیادہ جذباتی فیصلے نہ کرتے ..ادھر تم ادھر ہم جیسے نعروں کو روکتے ..مجیب کو اقتدار دے دیا جاتا ..اگر ضیاء کی چاپلوسی میں نہ آتے ...اگر بھٹو کو پھانسی نہ دی جاتی ..اگر گورنر کھر بھی اتنے ظلم نہ کرتا ...اگر گورنر کھر جیسے لوگوں کا بھی احتساب ہوتا ..اگر بھٹو احتساب کے عمل کو شفاف بنا دیتا ..اگر بیوروکریسی جنرل ییحیٰ کو پاکستانی جھنڈے میں عزاز کے ساتھ دفن نہ کرتی ...اگر میرا ہر حکمران کسی ایک غدار کو الٹا لٹکا دیتا ..سرے عام پھانسی دے دیتا ...اگر ہم انڈیا کے ساتھ دوستی کی پینگیں نہ اڑاتے ....اگر جنرل ضیاء افغانستان کی جنگ اور امریکہ کی جنگ نہ لڑتا ....اگر روس کو برباد کرنے سے پہلے پاکستان کے قرضے جرات سے معاف کروا لیتا ...اگر چڑیا ......باز کو مار گرانے سے پہلے اپنی قیمت وصول کر لیتی .....اگر ضیاء آیتیں پڑھ کر قوم سے چھوٹ نہ بولتا ..اگر ضیاء غیر جماعتی الیکشن نہ کرواتا ..اگر ضیاء بعد میں خرید و فروخت کر کے جونیجو کے لئے ووٹ نہ خریدتا ...پھر جونیجو کی حکومت کو غیر آینی طریقے سے ختم نہ کرتا ...اگر اس وقت تمام سیاستدان ضیاء کے خلاف ہو جاتے ..کابینہ سے علیحدہ ہو جاتے ...جونیجو کا ساتھ دیتے ..اپنے مفادات کو نہ دیکھتے تو آج حالات مختلف ہوتے ....اگر عدالتیں نظریہ ضرورت پر نہ چلتیں ...اگر عدالتیں بڑے لوگوں کے فیصلے وقت پر کرتیں ...زرداری جیسے لوگوں کے فیصلے بر وقت ہوتے ..یا موت ..یا سزا یا اندر یا باہر .....اگر بینظیر بھی فاروق لغاری کی بات مان لیتی یا سمجھ جاتی ....اگر اسحاق خان جیسے لوگ بھی قوم کے ساتھ بیدردی سے نہ کھیلتے ...اگر ہمارے سیاستدان مفاد پرست یا کرپٹ ..چور ..لٹیرے نہ ہوتے ...اگر نظام تبدیل کر دیا جاتا ..اگر بھٹو زمینوں کی تقسیم کرنے اور بیوروکریسی کو لگام ڈالنے میں کامیاب ہو جاتے ...اگر بینظیر اور نواز شریف عالمی گماشتوں کے ہاتھوں میں نہ کھیلتے ...اگر میرا حکمران چاپلوسی کو پسند نہ کرتا ...اور بیوروکریسی کے ہاتھوں میں نہ کھیلتا ....اگر نواز شریف کالا باغ ڈیم بر وقت بنا دیتا ..اگر نواز شریف خلافت کے لئے کسی ضیاء بٹ کی تلاش نہ کرتا ....اگر نواز شریف چھانگا مانگا کی سیاست نہ کرتے ..اگر نواز شریف گجرات والے چودھریوں کے ہاتھوں میں نہ کھیلتے ....اگر مشرف قوم کے ساتھ بغیرتی نہ کرتا ..نہ اس جنگ یعینی دہشت گردی والی آگ میں بزدلی سے چھلانگ لگاتا اور نہ چووروں ..لٹیروں .بےغیرت غدار . مفاد پرست ٹولے کو ساتھ ملا کر لمبھی حکومت کرنے کے خواب دیکھتا ..نہ ملک کا بیڑہ غرق ہوتا ...اگر مشرف چاہتا تو ایک رات میں نظام تبدیل ہو سکتا تھا ..مگر مشرف نے قوم کے ساتھ غداری کی .....اگر اس جنگ میں جانا ہی تھا تو ملک کے قرضے ہی معاف کروا لئے جاتے ....اگر ہم امریکہ کی جنگ میں نہ شامل ہوتے تو اتنا برباد نہ ہونا تھا ..جتنا اب تک ہو چکے ہیں ...نہ یار ہی ملا نہ وصال صنم ....امریکہ پھر بھی ہم سے خوش نہیں ہے ..البتہ وہ پاکستانی قوم کی رگ رگ سے واقف ہو چکا ہے ...اسی لئے تو اس کی اجنسیاں کھلے عام خرید و فروخت کر رہی ہیں ....

......

ایک سجدہ ہے جو تیرے اعتبار تک پنچے ...ایک آواز ہے جو تیرے درو دیوار تک پنچے ........................

.............................

جاری ہے ................................................

.....................

جاوید اقبال چیمہ ..میلان ..اطالیہ ....

..........................

٣٢٠..٣٣٧....٣٣٣٩......

Thursday, October 10, 2013

............................شیر کی ١٠٠ دن کی زندگی .....................
...........جو لوگ جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں وہ اپنی جگہ پر شاید سچے ہوں ..مگر پاکستانی جمہوریت پر لعنت بھیجنے والوں میں بھی  کمی نہیں آئی بلکہ   فرسٹریشن - اکتاہٹ اور ناامیدی میں اضافہ ہوا ہے ..اور جو لوگ پرویز مشرف اور زرداری کی جمہوریت سے تنگ تھے وہ شیر کی ١٠٠ دن کی کارکردگی سے نہ تو مطمئن ہیں  بلکہ بد دل ہو چکے ہیں ....شیر کی زندگی سمجھوتوں پر چل رہی ہے ..عالمی طاقتوں اور دوستوں اور بیوروکریسی کو خوش رکھنے پر چل رہی ہے اور ٦٥ سالوں کی تاریخ کے مطابق غریب کی زندگی اجیرن کر دی گئی  ہے ...١٠٠ دن کے اندر مشرف - زرداری اور الطاف بھائی کے ساتھ سمجھوتے کئے  گہے ..احتساب اور انصاف کا گلہ  گھونٹا گیا ..کیانی صاحب کو پردے کے پیچھے سے راضی کیا گیا ..پرانی ڈگر پر  چل کر وفاداروں کو چن چن کر محکموں کا سربراہ لگایا گیا اور ابھی یہ مشن جاری ہے ..اور پہلے  کی طرح سینارٹی کو پش پشت ڈال کر چمچے تلاش کرنے کی کوشش جاری ہے ...١٠٠ دن کی کارکردگی میں کرپشن ..مہنگائی ..بیروزگاری ..لوٹ مار اور بجلی .گیس .پیٹرول  میں اضافہ سرے فہرست ہے ...کوئی نظام نہیں بدلہ اور نہ بدلنے کی طرف گامزن ہیں ....تھانے - پٹواری - کچہری - سب کے سب پہلے کی طرح اپنی کرپشن کی انتہا میں ہیں ....لاکھوں  پْرانی تھانے  کی رپورٹ پہلے کی طرح گل سڑ رہی ہیں ...کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ..شریف برادران کی تمام تر دماغی قوت  اس نقطے پر خرچ ہو رہی ہے کہ کس طرح  اقتدار کو دوام بخشا جاۓ ..کس طرح طاقت کا سر چشمہ کوئی ضیاء بٹ کی طرح لانے کی دوبارہ کوشش کی جاۓ ..تاکہ خلافت کا خواب پورا کیا جا سکے ...اور کس طرح پلاننگ کے تحت پہلے چار سال عوام کا کچومر نکالا جاۓ اور آخری سال بینظیر سکیم کی طرح خزانے کا بیڑہ غرق کر کے اپنوں میں ریوڑیاں بانٹی جایں ..تاکہ کوئی لیپ ٹاپ وغیرہ کی طرح  رشوت عوامی خزانے سے دے کر پھر ووٹ خریدے جایں ..اب تک زرداری کی ملی بھگت سے باری باری  خزانے کو لوٹنے اور عوام  کو بکرے کی طرح ذبح کیا گیا ہے اور مزید یہ کام جاری رہے گا ..کیونکہ انصاف کے ساتھ  احتساب کرنے والوں نے نیپ کا چیئرمین اپنی مرضی کا لگا کر انصاف کا حساب برابر کر دیا گیا ہے ....اب عمران خان کو مجبور کر دیا گیا ہے اور مجبور کر کے کہا جاۓ گا کہ کر لو جو کرنا ہے ....اور عمران خان بھی آخر کار یہ بات سمجھ جاۓ گا کہ اس ملک میں یہ بےغیرت جمہوریت نظام نہیں بدل سکتی ...کیونکہ جس طرح دھاندلی کے مناظر منظر عام پر آ چکے ہیں اور ہر چہرہ عیاں ہو رہا ہے ...مہذب معاشرہ مہذب جمہوریت اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ الیکشن ایک بار پھر فوج کی موجودگی میں جلد از جلد کروا دئے جایں ...مگر منافق حکمران یہ کبھی بھی نہیں ہونے دے گا ..کیونکہ ایسا ان ملکوں میں ہوتا ہے جو مہذب ہوتے ہیں ..مگر ہم اس الفاظی جملوں سے بھی بھوت آگے نکل چکے ہیں ...ہم بھوک ننگ - اغوا - ڈاکوں اور قتل و غارت گری میں مر رہے ہیں اور ہمارا حکمران ہم کو آزادی کا اور امید کا اور صبر کا لیکچر دیتا ہے ......١٠٠ دن کی کارکردگی کو اگر تفصیل سے ایک ایک کارکردگی کے پس منظر میں جاؤں تو کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں ...کہ کیوں اداروں کو فروخت کرنے  کے بارے میں سوچا جا رہا ہے ..کس طرح اور کیوں  نندی پر پراجیکٹ پر کرپشن کی گئی ....کس طرح اور کیوں حمزہ شہباز ہزاروں گاڑیوں کی درآمد کر رہا ہے ...یہ سب میرے حکمران کے نزدیک قصے کہانیاں ہیں ..کیونکہ میں نیپ کا چیئرمین نہیں ہوں ..ورنہ  حسین  حقانی کب کا  ملک واپس لا کر حساب اور انصاف کیا جا چکا ہوتا  ..نہ مشرف کی ضمانت ہوتی اور اب تک زرداری کی تمام کرپشن عوام   کے سامنے بھی  آ چکی ہوتی ....یہ ١٠٠ دن کی کارکردگی شیر کو زیب نہیں دیتی . زرداری کے نعرے تو لگتے لگتے ٹل گہے تھے ...مگر  ..وہ وقت اب قریب ہے کہ شیر کے نعرے ضرور لگیں گے ...اگر شیر اپنے شکار کے لئے بھوکا ہے تو وہ بھوک  مٹانے  کے لئے دوڑے گا مگر آخر کار عوام  جیت جایں گے .. جب  عوام زندگی بچانے کے لئے دوڑیں  گے انشااللہ .....
........جاوید اقبال چیمہ....میلان ....اطالیہ ......١٠...١٠...٢٠١٣
 

Sunday, October 6, 2013

............................
من موہن سنگھ کا بیان .................

.............

میں ہندوستان کے حکمرانوں کی اقوامے متحدہ میں کارکردگی پر ان کو سلیوٹ پیش کرتا ہوں ...یہ ان کا حق ہے کہ وہ پاکستان کے بےغیرت حکمرانوں کو آئنہ دکھاتے رہیں ..تاکہ جو انڈیا کے ساتھ تجارت کی فیشن کی . میوزک کی . امن کی پینگیں چڑھاتے رہتے ہیں .ان کی آنکھیں کھل جایں ..یا ان میں غیرت اور ضمیر جاگنے کا کوئی عمل شورع ہو جاۓ ...امن کی آشہ والوں کی بھی شاید غیرت جاگ جاۓ ..اور وہ اپنا قبلہ تبدیل کر لیں ...اس سے زیادہ اور کیا پاکستان کی بےعزتی ہو گی ..کہ بغل میں جھری منہ میں رام رام والوں نے ہمارے منہ پر ایک اور تھپڑ رسید کر دیا ...میرے حکمرانوں کو چلی میں پانی لے کر ڈوب مر جانا چاہئے ..جو بار بار انڈیا کے حکمرانوں کے تلوے چاٹتے ہیں ..صرف اپنی کرسی کی خاطر ...میرے حکمران کو پاکستان کی سالمیت عزیز نہیں ہے ..ان کو عالمی ٹھیکیداروں کی خوشنودی عزیز ہے ..پاکستان کا حکمران اپنا کیس صح طرح پیش کرنے میں ناکام رہا ....ہم ہر وقت یہی کہتے رہے کہ اب کی مار سالے ....مگر اب تو یہ بھی طاقت ختم ہو چکی ہے ...اللہ خیر کرے اور میرے حکمران کو استقامت دے ..کہ وہ ہندوستان کو کبھی تو یہ کہ سکیں ...کہ پاکستان دہشت گرد ملک نہیں ہے بلکہ ہندوستان ایک دہشت گرد ملک ہے ..انڈیا پاکستان کے اندر دہشت گردی کروا رہا ہے ...پانی ..کشمیر ..بلوچستان کے مسلۂ کو اٹھاتا ..جو ظلم انڈیا کے مسلمانوں پر ہو رہا ہے وہ اٹھاتا ...پاکستان کو اقوام متحدہ میں صاف صاف کہنا چاہئے تھا ..کہ انڈیا افغانستان کے اندر ٢٠ قونصل خانے کھول کر کیا کر رہا ہے ..کیا مونگ پھلی کی خرید و فروخت کا کاروبار کر رہا ہے ..یا دہشت گردوں کی ٹریننگ کر رہا ہے اور کیوں ....پاکستان کے حکمران بھی کیسے حکمران ہیں ..کہ وہ تو اتنی طاقت بھی نہیں رکھتے کہ اس بےغیرت مشرف کو ہی پھانسی دے دیں ..جس نے اس آگ والی جنگ میں چھلانگ لگا کر فتنہ فساد کھڑا کیا ....اور پاکستان کا صرف امن ہی تباہ و برباد نہیں کیا ..بلکہ پاکستان کی سالمیت بھی داؤ پر لگا کر چلا گیا ...اس جنگ نے پاکستان کے اندر ہر برائی کو جنم دے دیا ہے ..جس کا کوئی حل بھی نہیں ہے ..اور ہمارا حکمران اتنا بےحس ہو چکا ہے کہ وہ ہر غریب کے گھر ہونے والے ماتم سے بے خبر ہے اور اپنی عیاشی میں مگن اور کرسی کو بچانے کے چکر میں ہے ...ملک کی عزت کو من موہن سنگھ دنیا میں برباد کر گیا اور ہم دیکھتے رہ گہے ..یہ آج نہیں ہوا ..میرے پالیسی ساز نے ہمیشہ یہی وطیرہ اپنایا ہے ...کیونکہ میرا پالیسی ساز ہی ملک کے ساتھ مخلص نہیں ہے ...ہم کو ہندوستان کے سفارتی ..تجارتی .مذاکراتی ..تمام کے تمام حتہ کہ اخلاقی دروازے بھی بند کر دینے چاہئیں ...اور انڈیا کو کہ دینا چاہئے ..کہ کھل کر کھیل .....ہم تو مر ہی چکے ہیں ..برباد بھی ہو چکے ہیں ..دنیا میں بدنام بھی ہو چکے ہیں ...اب اس سے زیادہ کیا ہو گا ...مردے کو قیامت سے کوئی غرض نہیں ہوتی ..اس کے لئے ووہی قیامت کا دن ہوتا ہے ..جس دن اس کا سانس اس کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے ......انڈیا سے اچھائی کی امید رکھنے والا بھی بےغیرت اور غدار ہے .......ٹھیک کہا تھا میرے بزرگوں نے کہ ظالم اتنا بےغیرت نہیں ہوتا ..جتنا ظلم سہنے والا بےغیرت ہوتا ہے .......میری ہر برائی کی جڑھ میرا حکمران ہے ..میری تھوڑی سی نفرت کا سبب بھی یہی ہے ...میری ہر اخلاق سے گری ہوئی حرکت کا ذمہ دار میرا حکمران ہے ...جو لوگ یہ کہتے کہ جیسی عوام ویسا حکمران ..ان کو حکمران کا فرض نہیں بھولنا چاہئے ..عوام کا کیا قصور ہے ..عوام نے کبھی بھی حکمران منتخب نہیں کے ...ہمیشہ ایک خاص منصوبے کے تحت بیوروکریسی -اسٹیبلشمنٹ -اور کبھی عالمی طاقتیں اپنی اپنی مرضی کا کھیل کھیلتی ہیں اور سٹیج سجاتی ہیں ..٦٥ سالوں سے تھانیدار -پٹواری اور کارپوریشن کا نظام تو حکمران دے نہیں سکا ..کیونکہ حکمران کو کرپشن . اقرباپروری عزیز ہوتی ہے .ورنہ اسحاق ڈار وزیر خزانہ کبھی نہ ہوتا ......امن کی آشہ والے اور موہن سنگھ زندہ باد اور میرا حکمران اور پالیسی ساز مردہ باد ...........جاوید اقبال چیمہ ...میلان ..اطالیہ ...